ضمنی چناؤسے ظاہر ہوا دہلی میں کانگریس کا گراف گرا!

ویسے تو چناؤکے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ آخری سیاست ہردن بدلتی ہے اور پولنگ کے دن کیا پوزیشن ہو کوئی نہیں کہہ سکتا۔ دہلی اسمبلی چناؤسرپر ہیں مقابلہ سہ رخی ہے۔ اگر ہم حالیہ کانگریس کی چناوی تاریخ پر نظر ڈالیں تووہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ دہلی اسمبلی چناؤ 2088ء میں کانگریس کو بھاری کامیابی کے بعد کانگریس کی مسلسل مقبولیت میں گراوٹ دیکھی گئی۔ ابتدائی مرحلے میں بھلے ہی کانگریس نے غیرمتوقعہ کامیابی حاصل کرلی ہو لیکن جیسے جیسے اسمبلی چناؤ قریب آتا ہے کانگریس کی سیٹیں گھٹتی جاتی ہیں۔ چناؤ کے بعد دہلی کے تین اسمبلی حلقوں کے علاوہ لوک سبھا چناؤ اور ایم سی ڈی چناؤ ہو چکے ہیں۔سال 2009ء میں لوک سبھا چناؤ میں سبھی ساتوں سیٹوں پر کانگریس کامیاب رہی تھی وہیں سال 2012ء میں ایم سی ڈی کے انتخابات میں بھاجپا نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔سال2009 ء کے چناؤ میں دہلی کے تین اسمبلی حلقوں روہتاس نگر، اوکھلا، دوارکا میں ضمنی چناؤ ہوئے۔ ان تینوں پرکانگریس کے ممبران قابض تھے لیکن چناؤ میں کانگریس صرف ایک سیٹ برقرار رکھ سکی۔ دو سیٹیں گنوا دیں۔ کانگریس کے سابق پردیش پردھان اور ممبر اسمبلی رام بابو شرما کی موت کے بعد روہتاس نگر سیٹ پر ان کے لڑکے وپن شرما نے تو باپ کی وراثت بچا لی لیکن اوکھلا کے ایم ایل اے پرویز حاشمی کے راجیہ سبھا ایم پی بننے کے بعد آر جے ڈی کے آصف محمد خاں نے یہ سیٹ ہتیالی۔ ایسے ہی دوارکا کے ایم ایل اے مہابل مشرا کے لوک سبھا ایم پی بننے کے بعدبھاجپا کا قبضہ ہوگیا ۔ دونوں سیٹوں پر کانگریس کے امیدواروں کو بھاری فرق سے ہار ملی تھی حالانکہ آر جے ڈی ممبر اسمبلی آصف محمد خاں اب کانگریس میں شامل ہوچکے ہیں۔ 2012ء میں ایم سی ڈی چناؤ کے بعد نارتھ دہلی میونسپل کارپوریشن نے نانگلوئی ایسٹ اور مشرقی دہلی میونسپل چناؤ میں یمنا وہار کے دو وارڈوں میں بھاجپا کو کامیابی حاصل ہوئی۔ بھاجپا امیدوار رینو نے 4200 ووٹ سے اور جمنا وہار سے آشا تائل نے کانگریسی امیدوار کو4700 ووٹ سے ہرایا۔ جب اسمبلی اور ایم سی ڈی چناؤ کے اشو الگ الگ ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کا اثر ان پر نہیں پڑتا لیکن ہوا کے رخ سے پتہ چلتا ہے کہ بیشک اس بار کانگریس نے مضبوط ٹیم اتارنے کی کوشش کی ہے لیکن کانگریس کے خلاف منفی فیکٹر کانگریس پر بھاری پڑ رہا ہے۔ہوا کا رخ اپوزیشن کی طرف زیادہ دکھائی پڑتا ہے۔ ’آپ‘ پارٹی سے نقصان بھی کانگریس کو زیادہ ہوگا بہ نسبت بھاجپا کے۔ حالانکہ یہ سبھی جانتے ہیں کہ اس بار دہلی اسمبلی چناؤ وزیر اعلی شیلا دیکشت کے نام پر اور دہلی کی چوطرفہ ترقی پر پارٹی چناؤ لڑ رہی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ابھی تک پارٹی نے یہ نہیں بتایا کہ اگر وہ چناؤ میں کامیاب ہوتی ہے تو وزیراعلی کون ہوگا؟ اشارے یہ مل رہے ہیں شیلا دیکشت کانگریس چناؤ جیتنے پر پھر شاید اس بار وزیر اعلی نہ بنیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟