کشمیر پر اپنی خرافاتوں سے باز نہیں آرہا ہے پاکستان!

ہندوستان سے دوستی بڑھانے کے نام پر دہلی آئے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کے قومی اور خارجی امور کے مشیر سرتاج عزیز نے کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں سے ملاقات کرکے رشتوں میں مزید تلخی پیدا کردی ہے۔ ہندوستان کے احتجاج کو مسترد کر عزیز کی جانب سے حریت نیتاؤں سے ملاقات پر سیاسی واویلا کھڑا ہونا ہی تھا۔یہ پہلی بار نہیں جب نئی دہلی آئے کسی پاکستانی نمائندے نے سرکاری بات چیت سے پہلے علیحدگی پسندوں سے ملنے کی پہل کی ہے۔ ایشیا اور یوروپ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کرنے آئے عزیز نے یہاں پاکستانی ہائی کمیشن میں علیحدگی پسندوں سے الگ سے ملاقات کی۔ میر واعظ عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس کے اصلاح پسند گروپ کے ساتھ بات چیت کرنے کے علاوہ عزیز نے جے کے ایل ایف کے چیئرمین یٰسین ملک، کٹر پسند حریت کے صدر سید علی شاہ گیلانی اور دختران ملت کی بانی آسیہ اندرابی سے بھی ملاقات کی۔ وقت سے پہلے پاکستان ہائی کمیشن کے نزدیک پہنچنے والے گیلانی نے کمپلیکس میں تب تک جانے کا فیصلہ نہیں لیا جب تک وہاں میر واعظ موجود تھے۔ جب وہ باہر نکلے تبھی گیلانی کمپلیکس کے اندر گئے۔ پاکستان ہائی کمیشن میں قریب گھنٹے بھر چلی میٹنگ کے بعد باہر نکلتے ہوئے حریت کانفرنس کے میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ بات چیت کا مقصد کشمیر اشو کا یقیناًسیاسی حل تلاش کرنا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جن نواز شریف کو دونوں دیشوں کے درمیان بہتر رشتوں کا حمایتی مانا جاتا ہے ان کی خارجہ پالیسی کے مشیر سرتاج عزیز نے دہلی آتے ہی یہ ہی جتایاکہ نئے اقتدارمیں بھی پاکستان کے لئے بھارت کے ساتھ کشمیر اہم اشو رہے گا اور نئی حکومت کی بات سے یہ بھی سوال اٹھنا لازمی ہے کہ وہ اتفاق نہیں بلکہ نواز شریف کے اقتدار میں آتے ہی سرحد پر پاک مقبوضہ علاقے میں لگاتار سرگرمی دیکھی گئی ہے۔ اس دوران پاک فوجیوں نے جارحانہ رویہ دکھایا ہے اور وہ مسلسل جنگبندی کی خلاف ورزی کررہی ہے اور کہہ رہے ہیں کہ گھس پیٹھ کے معاملے لگاتار بڑھے ہیں ظاہر ہے کہ نواز شریف سرکار پر پاکستان فوج حاوی ہے اور وہ اپنے حساب سے چل رہی ہے۔ پاکستان کی نیت اور کرنی دونوں صاف ہوچکی ہیں لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ سب کچھ جانتے سمجھتے بھارت سرکار اس طرح کی ملاقاتوں کی اجازت آخر دیتی کیوں ہے؟ سرتاج عزیز کو ہندوستانی سرزمین پر کشمیری علیحدگی پسندوں سے ملاقات کی اجازت دے کر کیا یوپی اے سرکار نے ایک بڑی ڈپلومیٹک غلطی نہیں کیا ہے؟ نیویارک میں پاکستان کے ساتھ امن قائم کرنے کی ایک ناکام کوشش کرنے کے بعد سرحد پر کشیدگی بڑھی ہے۔ اس کے باوجود بھارت سرکار نے سرتاج عزیز کو نئی دہلی میں کشمیری علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنے اور ان سے بات کرنے کی اجازت دے کر آخر بھارت سرکار دنیا کو کیا سندیش دینا چاہتی ہے؟ کیا عزیز کو یہ موقعہ دیا گیا ہے کہ جب پاکستان اپنی خرافاتوں سے باز نہیں آرہا ہے تو کیا یہ ملاقات بھارت کی سلامتی اور قانونی مفادات کے خلاف نہیں ہے۔ عالمی اسٹیج پرہم خود کشمیر اشو کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس کے برعکس ضرورت تو اس بات کی تھی کہ عزیز کو یاد دلایا جاتا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اور وہاں کی جنتا نے اپنی مرضی سے سرکار چنی ہے۔ حریت نیتاؤں کو کشمیری عوام میں کوئی مقبولیت نہیں ہے اور نہ ہی ان میں ان کے تئیں کوئی اتفاق رائے ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!