نہ طوطے کو اورطاقت دیں گے نہ ہی پنجرے سے نکلنے کی اجازت!

وزیراعظم منموہن سنگھ وزیر خزانہ پی چدمبرم جس طریقے سے سی بی آئی کو کھلے طور پر پھٹکار لگا رہے ہیں اس سے صاف ہے کہ منموہن سنگھ سرکار سی بی آئی سے خوش نہیں ہے اور جس طرح سی بی آئی چیف نے سرکار کو نصیحت دی یہ ہی کہا جائے گا کہ دونوں میں ٹھن گئی ہے۔ لگتا ہے کوئلہ گھوٹالے میں سی بی آئی کی سرگرمی سرکار کو راس نہیں آئی۔ سی بی آئی کی گولڈن جوبلی کے موقعہ پر منعقدہ سمیلن میں منموہن سنگھ نے سی بی آئی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ بغیر ٹھوس ثبوت کے سرکار کے پالیسی ساز فیصلوں پر انگلی اٹھانے سے باز آئے سی بی آئی۔ ہنڈالکوکول بلاک الاٹمنٹ معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے والی سی بی آئی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ فیصلے میں کوئی بھول جرم نہیں مانا جانا چاہئے۔ کانفرنس میں جس طرح سی بی آئی کو اس کی حدیں یاد دلائیں ہیں وہ سکتے میں ڈالنے والی ہیں۔ وزیر اعظم سی بی آئی کو مختاری دینے پر متفق نہیں دکھائی دئے۔ طوطا پنجرے میں ہی رہے گا یہ وزیراعظم نے صاف کردیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے سی بی آئی کا کام کاج انتظامیہ کی نگرانی میں چلنا چاہئے، یہی اشارہ دیتا ہے۔ پہلے دن وزیرداخلہ اور دوسرے دن وزیر خزانہ نے بھی اسی اسٹیج سے سی بی آئی کی حدوں پر قابض نہ ہونے کی نصیحت دے ڈالی۔ شایدوزیر اعظم اس بات سے تلملائے ہوئے ہیں کے ہنڈالکو کول بلاک الاٹمنٹ معاملے میں سابق کوئلہ سکریٹری پی سی پاریکھ کے خلاف معاملہ درج ہونے کے بعد جانچ کی آنچ سیدھے پی ایم او تک پہنچ گئی ہے۔ پی ایم او تک ہی نہیں خود وزیر اعظم تک پہنچ چکی ہے۔ پاریکھ نے کہا کہ اگر وہ ملزم ہیں تو وزیر اعظم کو کیسے بخشا جاسکتا ہے جبکہ ان کی نگرانی م و دستخط سے ہی الاٹمنٹ کو ہری جھنڈی ملی۔ وزیر اعظم کی دلیل ہے کہ بغیر غلط نیت کے موجودہ پالیسی کے تحت ہی فیصلوں کو مجرمانہ کارروائی قرار دینا ٹھیک نہیں ہے لیکن پالیسی اور فیصلوں کے درمیان حد پار ہونے پر ہی ایسی نوبت آتی ہے۔ اسی اسٹیج سے سی بی آئی کے چیف رنجیت سنہا کا یہ کہنا کہ پالیسی ساز فیصلوں میں گڑ بڑی کی گنجائش نہیں چھوڑنی چاہئے، سرکار کے رویئے پر یہ سوال کھڑا کرتا ہے کہ کوئلہ بلاک الاٹمنٹ ہوں یا ٹوجی اسپیکٹرم کرنوں کا معاملہ ہو ان میں نہ تو پالیسی ساز شفافیت دکھائی دی الٹے سرکار گھوٹالوں کو جھٹلانے میں لگی ہے۔ یہاں تک کہ سی بی آئی اسٹیٹس رپورٹ تک میں تبدیلی کردی گئی۔ سی بی آئی کی مختاری کو لیکر سپریم کورٹ میں بھلے ہی معاملہ چل رہا ہو لیکن سرکار کی منشا طوطے کو پنجرے سے آزاد کرنے کی قطعی نہیں ہے۔ یہ ہی نہیں سرکار اب سی بی آئی کے پر کترنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔ مرکز نے سی بی آئی کے ڈائریکٹر کو سکریٹری کے عہدے کے اختیار دینے اور انہیں سیدھے وزیر کو رپورٹ کرنے کی اجازت دینے کی مانگ کو سپریم کورٹ نے نامنظور کردیا ہے۔ مرکزی سرکار نے سی بی آئی کواپنا ماتحت ادارہ بتاتے ہوئے اس کے ڈائریکٹر کو اختیار دینے کی مانگ مسترد کردی ہے۔ مرکز نے کہا ہے کہ ایسا قانوناً غلط ہوگا کیونکہ اس طرح کی مانگ منظور کرنے کا مطلب ایک عہدیدار کے پاس آزاد اختیارہوگا۔ سپریم کورٹ میں داخل 23 صفحات پر مبنی حلف نامے میں سرکار نے کہا حالانکہ ڈائریکٹر سکریٹری گریڈ اور تنخواہ میں برابر ہے لیکن انہیں سکریٹری سطح کا عہدہ دینے کا حق نہیں منظور کیا جاسکتا کیونکہ اس سے سرکار کے دماغ اور اس کے ماتحت دفاتر کے درمیان تنظیمی رشتوں کا تجزیہ بدل جائے گا۔تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ سرکار پر خود اکثر سی بی آئی کے سیاسی بیجا استعمال کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ سرکار اگر اپنی حدوں کا خیال رکھیں تو شاید اسے سی بی آئی کو نصیحت دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وزیراعظم اور ان کے سپہ سالاروں کی نصیحت کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ کرپشن معاملوں میں سی بی آئی کی جانچ کو متاثر کرنا اور ایجنسی پر ناجائز دباؤ بنانا سرکار یہ یقین دہانی کرانے کے بجائے پالیسی اور اسے لاگو کرنے میں شفافیت برتے گی۔ انہوں نے پالیسی کی آڑ میں کرپشن کی جانچ کو لیکر سی بی آئی کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی ہے۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر ارون جیٹلی نے کہا پالیسی بنانا آئین سازیہ کا کام ہے اور سی بی آئی کو پالیسیوں کی جانچ نہیں کرنی چاہئے؟ انہوں نے سوال کیا اگر پالیسی کرپٹ مقاصد کے لئے ہو تو؟ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟