آئی بی، را اور ایس ایف آئی کے وجود پر سوال!

سی بی آئی کے وجود پر خطرہ منڈرا رہا ہے۔ بیشک گوہائی ہائی کورٹ نے سی بی آئی کو غیر آئینی قراردینے کے فیصلے پر سپریم کورٹ نے فی الحال روک لگادی ہو لیکن اس سے معاملہ سلجھا نہیں۔ گوہاٹی ہائی کورٹ کا فیصلہ آتے ہی مرکزی حکومت اور سیاسی گلیاروں میں کھلبلی مچ گئی۔ عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے 1984ء میں راجدھانی میں ہوئے سکھ دنگوں کے ملزم سینئر کانگریسی لیڈر سجن کمار نے کڑ کڑ ڈوما کورٹ کے سامنے عرضی دائر کر کہاکہ ان کے معاملے میں سی بی آئی کی جانچ اور اس کی جانب سے دائر چارج شیٹ کو ناجائز قراردیا جائے۔ سجن کے وکیل نے ضلع جج جے آرین کے سامنے گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلے کا ذکرکرتے ہوئے کہا اگر سی بی آئی خود ہی غیر آئینی ہے تو اس کی جانچ اور چارج شیٹ بھی غیر آئینی ہے۔ ایسے میں ٹو جی اسپیکٹرم الاٹمنٹ معاملے میں ملزم سابق وزیر مواصلات اے۔ راجا اور دیگر ملزمان نے پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں جمعہ کوایک عرضی دائر کر گوہائی ہائی کورٹ کے فیصلے کی سماعت پر روک لگانے کی مانگ کی۔ خصوصی سی بی آئی جج او پی سینی نے ان کی عرضی پر سماعت پر روک لگانے سے منع کردیا۔ عدالت نے ملزمان کی مانگ پیر کو مسترد کرتے ہوئے کیس میں گواہ جانچ افسر و سی بی آئی ایس پی وویک پریہ درشنی کے بیان درج کئے اور معاملے کوآگے بڑھایا۔ اس وقت کئی اہم معاملے عدالت میں زیر التوا ہیں۔ گجرات دنگوں کا معاملہ گوروہ بند سہراب الدین شیخ، عشرت جہاں فرضی مڈبھیڑ اور آروشی قتل کیس، یوپی کے ڈی ایس پی ضیا ء الحق قتل، ہریانہ کا ٹیچر گھوٹالہ، ممبر اسمبلی گوپال کانڈہ معاملہ، چارہ گھوٹالہ، کول بلاک معاملہ، ٹو جی اسپیکٹرم جیسے مقدمات کافی اہم ہیں جو چل رہے ہیں۔ حکومت آرڈر آتے ہی حرکت میں آگئی۔ سنیچر کو چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی۔ حالانکہ بڑی عدالت بند تھی لیکن معاملے کی سماعت چیف جسٹس پی ۔سداشیوم کے گھر پر ہوئی۔ چیف جسٹس کے گھر پر عدالت لگی۔ دو ججوں کی بنچ بنانے کے لئے جسٹس پرکاش ڈیسائی کو بھی بلایا۔ دونوں جج اور اسٹاف عام ڈریس میں تھا لیکن اٹارنی جنرل اور دیگر وکیل عدالتی لباس میں تھے۔ ڈرائننگ روم کو کورٹ کی سی شکل دی گئی۔ سماعت ٹھیک چار بجے شرو ع ہوئی اور تقریباً 20 منٹ تک چلی۔ دونوں جج صوفوں پر بیٹھے تھے اور ان کے سامنے سینٹرل ٹیبل نے بینچ کا کام کیا۔ میڈیا والوں کوسماعت سننے کے لئے اند ر آنے کی اجازت دی گئی۔ ججوں نے گوہاٹی ہائی کورٹ کے حکم پر تقریباً ساڑھے چار بجے اسٹے آرڈر جاری کردیا۔ چلو فی الحال معاملہ تو ٹلا لیکن دیکھنا یہ ہوگا سپریم کورٹ اپنے آرڈر میں کیا کہتی ہے۔ گوہائی ہائی کورٹ کے حکم سے دیش میں کئی ایجنسیوں کی تشکیل پر بھی سوال اٹھے گا۔ اس سے مرکزی سرکار کی دیگر چار ایجنسیوں کے وجود پر بھی سوال اٹھ سکتے ہیں۔ ان میں راء، آئی بی، این ٹی آر او، ایس ایف آئی وغیرہ شامل ہیں، جو انتظامی فرمان کے ذریعے قائم ہوئی تھیں۔ ان کا کام بھی سرکار کے لئے جانچ اور خفیہ معلومات اکٹھا کرنا ہے۔ ان کے پاس سی بی آئی کی طرح پولیس کے اختیارات نہیں لیکن بغیر قانون کے چل رہی ہیں۔ ان ایجنسیوں کے وجود کو بھی سپریم کورٹ میں چنوتی دی گئی ہے۔ یوں تو ان ایجنسیوں کے اوپر فی الحال ابھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہائی کورٹ کا فیصلہ صرف سی بی آئی تک محدود ہے۔ انٹیلی جنس بیورو کے تحت جب نیشنل ٹیکنیکل ریسرچ مارگ نیشن کی تشکیل کی بات آئی تھی تو ریاستوں نے اس کے ئے مرکز کو پہلے پارلیمنٹ جانے کی صلاح دی تھی۔ سپریم کورٹ میں ایک عرضی کے تحت مانگ کی گئی ہے کہ ایسی ایجنسیوں کے لئے قانون بنا کر انہیں پارلیمنٹ کے تئیں جوابدہ بنایا جائے۔ عرضی میں ایجنسیوں کے خرچ کا آڈٹ کرانے کی بھی مانگ کی گئی۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں جتنی خفیہ ایجنسیاں ہیں ان کے لئے پارلیمنٹ کے ذریعے قانون بنا ہے۔ اس میں امریکہ کی سی آئی اے، انگلینڈ کی ایم آئی سمیت15 ایجنسیاں شامل ہیں۔ گوہائی ہائی کورٹ کے حکم سے سی بی آئی کا کام متاثر ہوسکتا ہے۔ کم سے کم جب تک سرکار اور سپریم کورٹ آگے کا راستہ نہیں طے کرتی۔ صرف بڑے بڑے گھوٹالوں کی چل رہی جانچ رک سکتی ہے بلکہ سی بی آئی نئے کیس نہیں درج کر پائے گی حالانکہ ماہر قانون کا کہنا ہے جن کے خلاف جانچ پوری ہوچکی ہے اور مقدمے چل رہے ہیں یا جن کے معاملوں میں مقدمہ پورا ہوکر فیصلہ سنایا جاچکا ہے اس پر بھی اس فیصلے کا اثر نہیں پڑے گا۔ جیسے لالو یادو کا معاملہ ہے جن میں مقدمہ ختم ہونے پر اس پہلو پر غیر کیا جائے گا کے اس وقت یہ بھی دیکھا جائے گا کہ سی بی آئی جانچ سے ملزم کا کیا مفاد متاثر ہوا ہے۔ ویسے تو قاعدہ ہے کہ ہائی کورٹ جب بھی کسی قانون کو مسترد کرے گا وہ قانون بننے کی تاریخ سے بے اثر مانا جائے گا کیونکہ ہائی کورٹ کے فیصلے کو ریڈرو اسپیکٹرک (یعنی پہلے کی تاریخ) یا فیصلے کی تاریخ سے نافذ کرنے کی بات نہیں کی جاسکتی۔ دیکھیں مرکزی سرکار ان سوالوں کا کیسے حل نکالتی ہے؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!