اگلے صدر کیلئے ریس شروع ہوچکی ہے



Published On 28 April 2012
انل نریندر
بجٹ سیشن کے دوسرے مرحلے کے آغاز کے ساتھ ہی صدارتی چناؤ کے بارے میں غور و خوض او ر بحث میں تیزی آنے لگی ہے۔ دیش کے اعلی عہدے پر اس بار کون بیٹھے گا؟ سیاسی پارٹیوں نے ابھی سے ایک دوسرے کو ٹٹولنا شروع کردیا ہے۔ پارٹیاں صدارتی چناؤ کو اپنی طاقت کے مظاہرے کی ایک سخت آزمائش مان رہی ہیں۔ موجودہ صدر محترمہ پرتیبھا پاٹل کے عہدے کی میعاد جولائی کے آخری ہفتے میں پوری ہورہی ہے۔ فروری مارچ کے مہینے میں اترپردیش، پنجاب، اتراکھنڈ سمیت پانچ ریاستو ں کے اسمبلی چناؤ کے نتائج اور پھر اس کے ٹھیک بعد58 راجیہ سبھا سیٹوں کے لئے ایک ساتھ چناؤ ہونے کے بعدسیاسی تجزیئے بدلنے لگے ہیں۔ سیاسی نتیجہ غیر کانگریس غیر بی جے پی پارٹیوں کے حق میں زیادہ رہے اور اس سے تھرڈ فرنٹ کی سمت میں کام شروع کر ملائم سنگھ یادو اور ممتا بنرجی جیسے لیڈر سرگرم ہوگئے ہیں۔ وہیں این سی پی لیڈر شرد پوار نے بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ اپنی بات مضبوطی سے رکھیں گے۔ خود ساختہ تھرڈ فرنٹ کے لیڈروں کو سرگرم ہوتے دیکھ دونوں کانگریس اور بھاجپا بھی اب اپنی اپنی پسند کے امیدوار آگے بڑھانے میں لگ گئے ہیں۔ کانگریس ہائی کمان نے یوپی اے امیدوار کو ہی رائے سنہا ہلس (راشٹر پتی بھون) پہنچانے کی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ یہ آغاز سونیا گاندھی نے این سی پی لیڈر شرد پوار سے شروع کیا ہے۔ بھلے ہی کانگریس کے امیدوار کے نام پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہوپایا ہے مگر قیاس آرائی یہ ہے کہ نمبروں کے کھیل کو دیکھتے ہوئے پرنب مکھرجی کانگریس کا چہرہ ہوسکتے ہیں۔ کانگریس جانتی ہے کہ ان کے نام پر غیرا ین ڈی اے پارٹیوں کو بھی راضی کیا جاسکتا ہے۔ اگر سپا ،بسپا ،ترنمول کا ساتھ کانگریس مل جاتا ہے تو کانگریس اپنا امیدوار جتا سکتی ہے۔ کسی کانگریسی امیدوار پر اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں موجودہ نائب صدر حامد انصاری کو ہی یوپی اے کا صدارتی امیدوار بنانے کے لئے پلان تیار ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی پہلی پسند سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام ہوسکتے ہیں۔ اس معاملے پر بھاجپا نے اپنی اتحادی پارٹیوں کے ساتھ غیر یوپی اے اور دیگر سیاسی پارٹیوں کا دل ٹٹولنے کی کارروائی آہستہ آہستہ شروع کردی ہے۔ بھاجپا کلام کے علاوہ کسی دوسرے نام پر اسی صورت میں غور کرے گی جب اسے جیتنے کے لئے ضروری حمایت ان کے نام پر ملتی نظر نہ آئے۔ صدارتی چناؤ کی گھڑی بھلے ہی سماج وادی پارٹی چیف ملائم سنگھ یادو بہت دور مان رہے ہیں لیکن پارٹی اپنا ہوم ورک پورا کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ 2014ء میں لوک سبھا چناؤ کی چناوی جنگ کو سامنے رکھتے ہوئے سپا پوری شدت کے ساتھ مسلم امیدوار کی تلاش میں لگی ہے۔ اسی سلسلے میں ملائم کی ہدایت پر سپا کے دو بڑے لیڈروں نے پیر کو چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی سے خفیہ ملاقات کی تھی۔ دوسری طرف سپا کی پسندیدہ فہرست سے عبدالکلام کا نام بھی تقریباً باہر ہوچکا ہے۔ قریشی کے ساتھ حامد انصاری کے نام پر بھی سپا میں سنجیدگی سے غور و خوض جاری ہے۔ کانگریس میں اور بھی کئی نام چل رہے ہیں لوک سبھا کی اسپیکر میرا کمار کو ذات پات کی حیثیت سے دیکھتے ہوئے آگے بڑھایا جارہا ہے اور ڈاکٹر کرن سنگھ ، سشیل کمار شنڈے، فاروق عبداللہ اور سیم پترودہ جیسے نام بھی اچھالے جارہے ہیں۔ ریس شروع ہوچکی ہے فی الحال یہ پیشگوئی نہیں کی جاسکتی کہ ہندوستان کا اگلا صدر کون ہوگا۔
Anil Narendra, APJ Abdulkalam, BJP, Congress, Daily Pratap, Hamid Ansari, Mulayam Singh Yadav, Pranab Mukherjee, President of India, Samajwadi Party, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟