راجدھانی میں بچیوں کے سوداگروں کا دھندہ



Published On 27 March 2012
انل نریندر

راجدھانی دہلی میں چھوٹی بچیوں کے ان سوداگروں کو آفت مچا رکھی ہے۔ پچھلے دنوں ایسی اٹھائی گئی 8 بچیوں کو چھڑایا گیا۔ایک پلیسمنٹ ایجنسی پر چھاپہ مار کر جن 8 بچیوں کو چھڑایا گیا انہوں نے آپ بیتی 'چائلڈ ویلفیئر کمیٹی '(سی ڈبلیو سی) کو بتائی۔ اس کے بعد سی ڈبلیو سی نے پولیس کو حکم دیا کے ان لڑکیوں سے ملے سراغوں کی بنیاد پر پلیسمنٹ ایجنسیوں اور اس ریکٹ میں شامل لوگوں کی پہچان کی جائے اور ان پر سخت کارروائی کی جائے۔ سی ڈبلیو سی لاجپت نگر نے پولیس کو حکم دیا ہے کہ ٹریفکنگ کے جال میں پھنسی باقی بچیوں کو بھی آزاد کرایا جائے۔ واضح ہے کہ پچھلے دنوں سی ڈبلیو سے کے حکم پر دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے ایک پلیسمنٹ ایجنسی پر چھاپہ مارکر 8 بچیوں کو آزاد کرایا تھا۔ ان بچیوں کو مغربی بنگال کے الگ الگ گاؤں سے یہاں لایا گیا تھا۔ پلیسمنٹ ایجنسی نے انہیں نوکرانی کے کام پر لگادیا تھا۔ الزام ہے کہ وہاں ان کا استحصال ہورہا تھا۔ ذرائع کے مطابق کم سے کم 20 بچیاں ان کے جال میں ہیں۔ وسنت وہار جیسے پاش علاقے سے پچھلے دنوں ایک 8 سال کی بچی کو ایک گھر سے چھڑایا گیا۔ یہ بچی یہاں نوکرا نی تھی۔ بٹرفلائی چائلڈ ہیلپ لائن نے وسنت وہار تھانے میں اس بارے میں شکایت کی تھی۔ ایڈیشنل ڈی سی پی (ساؤتھ) پرمود کشواہا نے بتایا کہ بچی بہار کے چھپرا کی رہنے والی ہے۔ جس گھر سے بچی کو چھڑایا گیا ہے اس کے مالک کا کہنا ہے کہ بچی ان کی دور کی رشتے دار ہے اور 10 دن پہلے ہی اس کی دادی اسے وہاں چھوڑ کر آئی تھی۔ چھڑائی گئی 8 لڑکیوں کو سی ڈبلیو سی کے سامنے پیش کیا گیا۔دو لڑکیوں نے صاف بتایا کہ ان کے ساتھ بہت بے رحمی برتی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ایمپلائر نے فزیکلی ایبیوز کیا ہے ۔ پلیسمنٹ ایجنسی کے مالک کے خلاف بھی شکایت ہے کہ اس نے بچیوں کو کوئی محنتانہ بھی نہیں دیا۔ایک لڑکی نے بتایا کہ مالویہ نگر میں جہاں وہ کام کرتی تھی اس کی مالک اسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر پیٹتا تھا۔ اسے کبھی پیسے نہیں دیتا تھا۔ دوسری لڑکی نے بتایا کہ اسے بری طرح سے مارا جاتا تھا۔اس نے دائیں آنکھ پر چوٹ کے نشان بھی دکھائے۔ اس نے بتایا کہ کس طرح مالک کا بیٹا کئی بار اس کے جسم کو چھوتا اور سیکسول ہیرس کرتا تھا۔ جب کوئی گھر میں نہیں ہوتا تھا تو وہ مجھے اپنے کمرے میں بلاتا تھا۔ جب میں نے یہ سب کرنے سے منع کردیا تو اس نے برا برتاؤ شروع کردیا۔ میں نے ڈر کے مارے کسی کو کچھ بھی نہیں بتایا۔ ایک نابالغ لڑکی جو میڈ کا کام کرتی تھی، اس کو پولیس اور 'بچپن بچاؤ آندولن' کے ورکروں نے گیتا کالونی سے چھڑایا۔ علاقے کے گھر میں نوکرانی کا کام کرنے والوں پر مالک کا ڈر اتنا حاوی تھا کہ اس نے چار سال پہلے اپنی ماں کو ہی پہچاننے سے انکار کردیا۔بدھوار کو جب وہ اپنے پریوار کو ملی تو اس کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ راجدھانی میں میڈوں کے نام پر ٹریفکنگ کا دھندہ پھل پھول رہا ہے اور اس میں کچھ پلیسمنٹ ایجنسیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اسے کیسے روکا جائے یہ پولیس کے علاوہ ماں باپ اور سماج کی ذمہ داری بنتی ہے۔
Anil Narendra, Crime, Daily Pratap, Delhi, delhi Police, Trafficking, Vir Arjun

تبصرے

  1. ye dnda pakistan main be aaroj pr ha, aksur larkion ko middile east smuggle kr dia jata ha,ya pr jism froshi pr majboor kia jada hai, aap nay apnay kisi politician kay baray main nahi bataya kay is dnday main un a kia role ha, yahan ka politician ke aksareut aisay kamoon ke hosla hafzai karti ha

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!