یوپی اے سرکار کی تین سالہ رپورٹ کارڈ


Published On 25 March 2012
انل نریندر
اترپردیش ، پنجاب، گوا اسمبلی انتخابات میں ہار کے بعد دہلی میونسپل کارپوریشن میں کانگریس کی 
مسلسل پانچویں ہار ہے۔ کانگریس قیادت والی یوپی اے حکومت 22 مئی کو اپنے تین سال پورے کرنے جارہی ہے۔ روایت کے مطابق سرکار اسی دن ''رپورٹ ٹو دی پیوپل'' جاری کرے گی۔ پتہ نہیں منموہن سنگھ سرکار اور کانگریس پارٹی اس دوران اپنے کیا کیا کارنامے گنائے گی۔ وقت آگیا ہے کانگریس پارٹی جائزہ لے کے آخر وہ کس طرف جارہی ہے۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ اب لوک سبھا چناؤ زیادہ دور نہیں ہیں اور اس سے پہلے پارٹی کو گجرات، ہماچل ،مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور دہلی میں اسمبلی چناؤ کا سامنا کرنا ہے۔ یوپی اے حکومت کی دوسری پاری مسلسل تنازعات میں گھری رہی۔ کامن ویلتھ گیمز ، ٹوجی اسپیکٹرم گھوٹالہ اور آدرش ہاؤسنگ سوسائٹی جیسے تمام گھوٹالے مہا گھوٹالے سرخیوں میں رہے۔ ان کے چلتے کانگریس کو مسلسل فضیحت جھیلنی پڑ رہی ہے۔ کہیں سے بھی سیاسی راحت نہیں ملتی دکھائی پڑتی۔ پارلیمنٹ میں پچھلے کئی مہینوں سے غیر کانگریسی لیڈر یوپی اے سرکار کے خلاف مورچہ بندی تیز کررہے ہیں۔ خود بھی یوپی اے کے اندر کئی پارٹیاں حکومت کا درد سر بڑھا رہی ہیں۔ سب سے زیادہ دقت ممتا بنرجی کی قیادت والی ٹی ایم سی کی طرف سے ہے۔مسلسل ایک معمہ بنا ہوا ہے کہ ٹی ایم سی کب تک سرکار میں بنی رہے گی؟ کیونکہ وہ ہر مہینے یوپی اے سرکار کے خلاف کوئی نہ کوئی سیاسی واویلا کھڑا کردیتی ہے۔بگڑتے ٹریک ریکارڈ کے چلتے یوپی اے ۔II سرکار اور پارٹی عدم اعتماد کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کانگریس کے تمام لیڈر اب ایک دوسرے پر الزام تراشی میں لگے ہوئے ہیں۔سرکار اور پارٹی میں تال میل کی باتیں ضرور ہورہی ہیں لیکن تصویر کچھ اور ہی ہے۔ بڑے نیتاؤں کی نوراکشتی اس وقت پورے شباب پر ہے۔10 جن پتھ میں بڑی بڑی میٹنگیں ہورہی ہیں لیکن پارٹی کی سپریم پالیسی متعین کرنے والی یونٹ کانگریس ورکنگ کمیٹی میں حال میں ایک بھی بڑے اشو پر بحث نہیں ہوپائی۔اگر مل رہی خبروں پر یقین کیا جائے تو مہاراشٹر کے وزیر اعلی اشوک چوہان کو گزشتہ ملاقات میں پارٹی صدر سونیا گاندھی نے دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ وہ یا توا لتوا میں پڑے معاملوں پر فیصلہ لے کر کام شروع کریں ورنہ پارٹی لیڈر شپ ان سے آگے کے بارے میں غور وخوص کرے گا۔ اسی طرح راجستھان میں لیڈر شپ تبدیلی کی مانگ زور پکڑ رہی ہے۔

آندھرا پردیش ، ہریانہ، اتراکھنڈ میں بھی لیڈر شپ کے لئے پریشانیاں کھڑی ہیں۔ ان حالات میں پارٹی کے حکمت عملی سازوں کو ایک مضبوط اور کارگر حکمت عملی بنانی ہوگی جس سے کے منصوبہ بند طریقے سے آگے آنے والی چنوتیوں سے موثر ڈھنگ سے نپٹا جاسکے۔ کانگریس کے ایک بڑے نیتا کا کہنا ہے یوپی اے کے دوبارہ مرکز میں برسر اقتدار ہونے کے بعد اس کی ساکھ ایک کرپٹ اور مہنگائی بڑھانے والی حکومت کی بنتی چلی گئی ہے اور آج تک یہ ہی ساکھ دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے جس کے سبب کانگریس کو پچھلے تین سالوں میں دیش بھر میں ہوئے چناؤ اور ضمنی انتخابات میں تقریباً ہر جگہ ہار کا منہ دیکھنا پڑا ہے لہٰذا پارٹی کے حکمت عملی ساز چاہتے ہیں تنظیم کے سبھی بڑے لیڈر اس بات کے لئے مل بیٹھ کر آتم چنتن کریں اور غور خوض کریں کے مرکزی سرکار کون کون سے ایسے قدم اٹھائے جس سے اس کی ساکھ بہتر ہو۔ انہیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اتحادی پارٹیوں کے دباؤ سے کیسے آزاد ہواجائے۔ تال میل پر مبنی سیاست کو کتنی اہمیت دی جائے۔ عام لوگوں کے قریب آنے اور پرانی مقبولیت کو حاصل کرنے کے لئے کیا کیا جائے جس سے کے پارٹی ورکر پھر سے نئے جوش کے ساتھ میدان میں اتر سکیں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے سے کام نہیں چلے گا۔
Anil Narendra, Congress, Daily Pratap, Mamta Banerjee, Manmohan Singh, Scams, UPA, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟