سیاچن پر جنرل کیانی کے بیان کی حقیقت؟



Published On 24 March 2012
انل نریندر

پاکستان میں فوج اور زرداری حکومت میں اختلافات ہیں اس کی ایک مثال ہمیں پاک فوج کے سربراہ اشفاق کیانی کے سیاچن سے متعلق بیان سے ملتی ہے۔ بہت کم جنتا میں بولنے والے جنرل کیانی نے پچھلے دنوں کہا تھا بھارت اور پاکستان دونوں کو سیاچن سے اپنی فوجیں واپس بلا لینا چاہئیں اور دونوں ملکوں کو سیاچن کے اشو کو بات چیت سے حل کرنا چاہئے۔ خیال رہے کہ سیاچن میں اس مہینے کے شروع میں برفیلی چٹانے گرنے سے 125 پاک فوجی سمیت139 لوگوں کی دب کر موت ہوگئی تھی۔ جہاں ہمیں اس بات کا دکھ ہے کہ اتنے پاکستانیوں کی موت ہوئی ہے ہم ان کے کنبوں کے دکھ میں برابر کے شریک ہیں وہیں ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ ہمیں جنرل کیانی کی باتوں پر زیادہ یقین نہیں کرنا چاہئے۔ادھر جنرل کیانی کا بیان آیا تو ادھر کچھ دیر بعد ہی پاک وزارت خارجہ نے وضاحت جاری کردی کے سیاچن مسئلے پر پاکستان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس سے سوال اٹھتا ہے کہ کیا جنرل کیانی کے سیاچن کے دورہ میں جہاں پاکستانی فوجیوں کی موت ہوئی تھی وہ اس موت کے قہر پر ان کا محض جذباتی رد عمل تھا؟ کیا ہم اس کا یہ مطلب نکال سکتے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری کے دورۂ بھارت کے ساتھ رشتوں میں بہتری کی کوشش کو پاکستانی فوج کی حمایت حاصل ہے؟اتفاق سے پاکستان کے سابقوزیر اعظم نواز شریف نے بھی زرداری کے دورۂ ہند کی حمایت کی اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ سیاچن مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لئے وہ اپنی طرف سے پہل کریں۔ مشکل یہ ہے کہ پاکستان کے قول اور فعل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پاکستان سے ملنے والے متضاد بیانات اکثر مشکلیں پیدا کردیتے ہیں ۔
حال ہی میں پاکستانی لیڈروں کے بیانوں سے کچھ مثبت اشارے ملے ہیں مثلاً وزیر داخلہ رحمان ملک کی ہندوستان کوآگاہی کرنا کے طالبانی جنگجو بھارت میں دراندازی کرسکتے ہیں اور اسے روکنے کیلئے پاکستان بھارت سے پورا تعاون کرنے کو تیار ہے۔ لیکن انہی رحمن ملک نے نواز شریک کی اس تجویز پر بھی نکتہ چینی کی کے پاکستان کو ایک طرفہ قدم اٹھاتے ہوئے سیاچن سے اپنی فوج ہٹا لینی چاہئے۔ ایسے سلسلوں کی وجہ سے ہم جنرل کیانی کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لے سکتے۔ جو اپنے دیش اپنے استحکام کو بھارت سے دشمنی کے حوالے سے تشریح کرتا آرہا ہے اور جہاں تقسیم کے ناقابل عمل ایجنڈے کو پورا کرنے کی باتیں کھولے عام کہی جاتی ہوں ،وہاں کے فوج کے سربراہ کی باتوں پر بھلے ہی یقین نہ آئے لیکن یہ فطری ہی ہے تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے کم سے کم تین مرتبہ سیاچن سے بھارت کی فوجوں کو ہٹانے کیلئے ناکام فوجی آپریشن کئے۔ یہاں کا موسم اتنا خطرناک ہے کہ جنگ کی بہ نسبت برفیلی چٹانیں گرنے اور سرد لہر سے زیادہ لوگ مرتے ہیں۔ دونوں ہی دیشوں کو یہاں اپنی ڈیفنس فوج پر جتنا خرچ کرنا پڑتا ہے اس کے عوض انہیں کوئی خاص فائدہ نہیں ملتا۔ ہندوستان کا کہنا ہے کہ ہم اپنی فوجوں کی واپسی پر بات چیت کرسکتے ہیں لیکن اس سے پہلے دونوں ہندوستان ۔پاکستان کی فوجیں اس وقت کہاں کہاں ہیں ان کی نشاندہی کی جائے اور یہ کرنے سے پاک بچتا رہا ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, General Kayani, Indo Pak War, Pakistan, Siachin, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟