نئے فتوے: مسلم خواتین بیوٹی پارلر میں نہ کام کریں، مرد دوسری شادی سے بچیں



Published On 22 March 2012
انل نریندر
دیوبندی مسلک کی سب سے بڑی اسلامی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے فتوے ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں۔ دیوبند نے ایک فیصلے میں خواتین کے بیوٹی پارلر میں کام کرنے سے منع کیا ہے، ایسا کرنا شریعت کے خلاف ہے۔ دیوبند کے اس فیصلے پر سیاسی سطح پر اور سماجی سطح پر تلخ رد عمل سامنے آرہا ہے۔ کچھ مسلم لیڈروں نے اس فیصلے کو عورتوں کی سماجی و اقتصادی بھلائی کے نکتہ نظر سے اسے غلط مانا ہے۔ کانگریس کے ترجمان راشد علوی نے کنی کاٹتے ہوئے کہا کہ کسی مذہبی معاملے میں رد عمل ظاہر کرنا ٹھیک نہیں ہے وہیں بھاجپا کی ترجمان نرملا سیتا رمن کہتی ہیں کے مسلم خواتین کو آگے بڑھنے کی اسی طرح آزادی ہونی چاہئے جس طرح دیگر مذاہب کی خواتین کو ملی ہوئی ہے۔ فتوے خواتین کی اقتصادی و سماجی فروغ میں رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں۔ دوسری طرف راجیہ سبھا کے آزاد ایم پی محمد عدیب کا کہنا ہے دیکھنا چاہئے کے دیوبند نے یہ فتوی کیو جاری کیا؟ ان کا کہنا ہے کہ دارالعلوم دیوبند سے کسی نے پوچھا ہوگا۔ اگر کسی بیوٹی پارلر میں مرد بھی آتے ہیں تو کیا ایسے پارلر میں خواتین کا کام کرنا مناسب ہوگا؟ اس کے جواب میں فتوی آیا ہوگا کے ایسی جگہوں پر عورتوں کا کام کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس کے برعکس سماجی رضاکار رنجنا کماری نے اس فتوے کو پوری طرح غلط بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے فیصلے عورتوں کی اقتصادی و سماجی ترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ مذہبی اداروں کو ایسے فتوے جاری کرنے سے پہلے سماجی سطح پر ہو رہی تبدیلیوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ خواتین کے لئے بیوٹی پارلر آج روزگار کا اہم ذریعہ بن گیا ہے اور اس کے ذریعے اگر کوئی خاتون اپنے گھر کی پرورش کرتی ہے تو اس میں آخر برائی کیا ہوسکتی ہے؟ دوسری صلاح مسلمانوں کے ذریعے دوسری شادی کرنے سے متعلق ہے۔
دارالعلوم دیوبند میں اپنے نظریئے میں ایک اہم تبدیلی لاتے ہوئے ایک سے زیادہ شادیاں کرنے سے بچنے کی صلاح دی ہے۔ شرعی قانون کے تحت ایک سے زائد شادیاں جائز ہیں لیکن اب دیوبند نے پہلی بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کے خواہشمند ایک شخص کو نصیحت دی ہے کہ جدید دور کے تقاضوں اور ضرورت کے حساب سے یہ صحیح نہیں ہے۔اس شخص کے پہلی بیوی سے دو بچے ہیں۔ شریعت کے مطابق ایک مسلم شخص کو ایک ہی ساتھ دو بیویاں رکھنے کا حق ہے لیکن دارالعلوم ۔دارالافتاء جو دارالعلوم کا آن لائن فتوی جاری کرنے کا شعبہ ہے کا کہنا ہے کہ اس طرح کی باتیں (ایک سے زیادہ شادی) آج کی ہندوستانی روایات میں قابل تسلیم نہیں ہے۔ ہندوستان میں ایسا کرنا سینکڑوں مصیبتوں کو دعوت دینا ہے۔ اس کے علاوہ اس طرح کی شادی میں دونوں بیویوں کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا کسی بھی آدمی کے لئے کافی مشکل ہے۔ اس لئے آپ دوسری شادی کا ارادہ ترک کردیجئے۔ فتوی کمیٹی کے چیئرمین مفتی ارشد فاروقی نے کہا کے بغیر کسی ٹھوس بنیاد کے سبب دوسری اور تیسری شادی نہیں کرنی چاہئے۔ گھر کے چھوٹے موٹے جھگڑوں کو طلاق یا دوسری شادی کی بنیاد کبھی نہیں بنانا چاہئے۔ شریعت میں ایک مسلم شخص کو ایک ساتھ چار بیویاں رکھنے کی اجازت ضرور دی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی صاف صاف کہا ہے کہ چاروں کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کیا جانا چاہئے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر ڈاکٹر نعیم حامد کا کہنا ہے کہ پہلے ایک سے زیادہ شادیوں کی روایت اس لئے تھی کہ کئی غریب لڑکیاں مختلف اقتصادی اور سماجی اسباب سے کنواری رہ جاتی تھیں لیکن اب مسلم سماج کو چار تو کیا دوسری شادی سے بھی بچنا چاہئے۔ دوسری شادی کرنا خاندانی ڈھانچے کو بری طرح سے متاثر کرتا ہے۔ پہلے دارالعلوم ایک سے زیادہ شادیوں کو منع نہیں کرتا تھالیکن اب اس کی زیادہ توجہ مسلمانوں کو اقتصادی اور سماجی طور سے اٹھانے پر مرکوز ہوچکی ہے۔
Anil Narendra, Daily Pratap, Deoband, Fatwa, Islamabad, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!