اظہار رائے کی آزادی کے نام پر صحافیوں کو اعزاز!

جان کی بازی لگا کر اظہار رائے کی آزادی ، غلط اطلاعات سے مقابلہ اور ناکارہ حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی جد و جہد کررہے دو صحافیوں کو اس مرتبہ پیس نوبل ایوارڈ کے لئے چنا گیا ہے ۔نوبل کمیٹی نے جمعہ کو روس کے صحافی دیمتری یو را توف (59 برس ) اور فلپائن کی ماریہ ریسا (58 برس ) کو یہ اہم ترین ایوارڈ دینے کا اعلان کیا ہے ان دونوں نے بولنے کی آزادی کی حفاظت کی پرزور کوشش کی ۔یہ جمہوریت اور امن کے لئے ضروری شرط ہے ۔یہ دنیا کے ان صحافیوں کے نمائندے ہیں جو اپنی اپنی جگہوں پر ناگزیں حالات میں جدو جہد کرتے ہوئے جمہوریت اور پریس کی آزادی کے لئے لڑائی لڑرہے ہیں ۔80 سال بعد کسی صحافی کو نوبل ایوارڈ ملا ہے اس سے پہلے 1935 میں جرمن صحافی کارل وانا کو دوبارہ تقویت کی وکالت کے لئے نوبل ملا تھا ۔126 سال کی تاریخ میں ماریہ 18 ویں خاتون ہیں جنہیں یہ نوبل ایوارڈ ملا ہے ۔ماریہ فلپائن کے صدر روڈریگو و ان کے غلط فیصلوں اور غلط اطلاعات کے لئے مسلسل ذمہ دار ٹھہراتی رہی ہیں ۔ٹائم میگزین نے پرسن آف دی ایئر انہیں نامزد کیا تھا ۔ماریہ نے 2012 میں پورٹل شروع کیا اور دودنتا سرکار سے لوہا لیتی رہیں ۔اپنے پورٹل کے لئے وہ مسلسل سرکاری کرپشن کا پردہ فاش کررہی ہیں ۔ماریہ نے دیش میں ڈکٹیٹرشپ تانا شاہی اور اقتدار کے بیجا استعمال کے بارے میں انکشاف کیا۔نشہ کےخلاف ہوئی جنگ میں انسانی حقوق اور قتل عام کی سچائی سامنے لائی ۔سرکار نے شوشل میڈیا سے فرضی خبریں چھپوائیں اور حریفوں کو پریشان کیا ۔اور پبلک رائے کو اپنے مطابق اپنی حمایت میں کرنے کے لئے کھیل کیا ۔ماریہ نے کہا یہ ایوارڈ یہ نشاندھی کرے گا کہ آج صحافت کتنی مشکل ہے اور سچ کی قیمت 28 سال میں اخبار کے روس میں 6 صحافیوں کا قتل ہو چکا ہے ۔ نوبل کمیٹی کہتی ہے اس کے باوجود دمتری نے اخبار کی آزاد پالیسی چھوڑنے سے انکار کر دیا انہوں نے صحافت کے پیشہ ور اور اخلاقی تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئے اپنے صحافیوں کو کچھ بھی لکھنے کا اختیار ہمیشہ بچاو¿ کیا ۔دمتری متاتوف کہتے ہیں کہ اس ایوارڈ کا کریڈٹ صرف میں نہیں لے سکتا یہ ان کا ہے جنہوں نے بولنے کی آزادی کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کر دیں ہم ان دونوں صحافیوں کو مبارکباد دیتے ہیں اور نوبل کمیٹی کا شکریہ ادار کرتے ہیں کہ آخر کار انہوں نے صحافت کا سمان کیا انہوں نے نشاندھی کی کہ اس وقت صحافت کتنا خطرے بھرا کام ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟