وبا سے تو بچ گئے ، لیکن یہ مہنگائی مار ڈالے گی!

کورونا وبا کی دوسری لہر جیسے جیسے دیش میں دم توڑ رہی ہے مگر آفت کی ایک نئی لہر پروان چڑھ رہی ہے کورونا لہر سے تو لوگ بچ گئے لیکن اب جو لہر بڑھ رہی ہے اس سے کوئی بچنے والا نہیں یہ ہے زبردست مہنگائی کی جس کے اثر سے اب ہر کوئی پریشان ہے لیکن دکھ ہے کہ کوئی ہائے توبہ نہیں کر رہا ہے سب اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں اور ہاتھ مل رہے ہیں کورونا لاکھوں لوگوں کی نوکریاں کھا گیا لاکھوں لو گوں کی بیروزگاری بڑھ گئی ہے لوگ رشتہ داروں سے پیسہ مانگ کر یا قرض لیکر گزارا کر رہے ہیں چونکہ مزدوروں کو تنخواہ ملنے کا سنکٹ ہے ۔ پچھلے دو تین دنوں سے پیڑول ڈیزل کے دام بڑھتے جا رہے ہیں اس کے لئے لوگ اپنا بجٹ بیلنس محدود کر رہے ہیں اب رسوئی گیس سلینڈر کے دام بھی پندرہ روپئے بڑھ گئے ہیں جس وجہ سے رسوئی گیس سلینڈر نو سو روپئے تک پہونچ گیا ےہ جس وجہ سے لوگ چاہ کر بھی اپنا بجٹ بر قرار نہیں رکھ پا رہے ہیں سمجھ میں نہیں آپا رہا ہے کہ کہاں سے بجٹ میں کٹوتی کریں اور کہاں جوڑیں ؟دہلی کے بازار میں جمعہ کو پیڑول 103.54روپئے فی لیٹر پار چلا گیا جب کی ڈیزل 92.12روپئے فی لیٹر کے بھاو¿ پر مل رہا ہے پچھلے گیارہ دنوں میں پیٹرول کے دام میں 2.35فی لیٹر اضافہ ہوا ہے گیس سلینڈر کے دام کے بڑھنے کی وجہ سے رسوئی کا بجٹ بھی بڑھ رہا ہے سبزی سے لیکر سرسو تیل سب کے دام بڑھے ہیں کاروبار پر ابھی بھی کوویڈ وبا کا اثر ہے اس سال بھی رسوئی گیس کے دام جنوری سے ہر پندرہ مہینے 25-25روپئے کے حساب سے بڑھائے جا تے رہے ہیں اب اس میں اور پندرہ روپئے کا اضافہ ہو گیا غریبوں کے کام آنے والے پانچ کلو کا سلینڈر بھی پانچ سو روپئے سے بھی زیادہ مہنگا ہو گیا چاہے سب سڈی والا ہو یا کمرشیل اس کے ہر طرح کے سلینڈر کے دام آسمان چھو رہے ہیں حکومت کی ایک معصوم سی دلیل ہے تیل اور گیس کے دام پیٹرولیم کمپنیاں طے کر تی ہیں اور یہ ریٹ بین الاقوامی بازار کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں ان پر کنٹرول کسی سرکار کے بس میں نہیں ہے یہ مانا جا سکتا ہے کہ فی الحال پیٹرولیم مصنوعات کے دام بین الاقوامی بازار سے بھی اونچے چل رہے ہیں لیکن کورونا دور میں یہ کافی نیچے آگئے تھے لیکن دیش میں کنزیومر پر دام بڑھا بڑھا کر مسلسل بوجھ ڈالا گیا تھا یہ صحیح ہے کہ انٹر نیشنل مارکیٹ میں رسوئی گیس اورکچلے تیل کے داموں کو کنٹرول کر پانا سرکار کے بس سے باہر ہے لیکن دیش کے زیادہ تر لوگوں کو مناسب داموں پر چیزیں کیسے ملیں اس کے اقدام تو کئے جا سکتے ہیں پیٹرول اور ڈیزل پر لگائے جانے والے بھاری بھرکم ٹیکسوں پر لمبے وقت سے آواز اٹھتی رہی ہے سرکاروں نے اسے خزانہ بھرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے در اصل سرکاریں جانتی ہیں کہ ایندھن رسوئی گیس دودھ کھانے پینے کی چیزوں کا سامان کتنا بھی مہنگا کیوں نہ کر دیا جائے لوگ بغیر خریدے رہ نہیں سکتے پیٹرول ڈیزل پر جی ایس ٹی کے دائرے میں لانے پر کوئی رضا مندی نہیں ہوتی یہ بات سامنے آرہی ہے کہ مستقبل میں پیٹرول اور رسوئی گیس اور مہنگے ہوں گے جنتا پریشان ہے کیونکہ ایندھن اور دودھ اور گھر چلانے کے لئے راشن خریدنا اس کی مجبوری ہے چاہے دام کتنے ہی بڑھ جائیں لیکن جنتا کب تک ایسا چلنے دے گی ؟ایسا نہ ہوکہ لوگوں کی بگڑتی مالی حالت سرکاروں کا ہی پسینہ نہ چھڑا دے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟