ضمانت پر با ہر آکے کر ڈالی52وارداتیں!

حال ہی میں سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عدالتوں کو یہ پتہ لگانے کیلئے کسی ملزم کی پچھلی زندگی کی پڑتال کر نی چاہیے کہ کیا اس کا ریکارڈ خراب ہے اور کیا وہ ضمانت پر رہا ہونے پر سنگین جرائم کو انظام دے سکتا ہے ؟جسٹس دھننجے وائی چندر چوڑ اور جسٹس ایم آر شاہ کی بنچ نے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے ذریعے قتل اور مجرمانہ سازش کے اندیشوں کا سامنا کر رہے ایک شخص کو دی گئی ضمانت کو منسوخ کر تے ہوئے یہ رائے زنی کی بنچ نے کہا کہ ضمانت عرضیوںپر فیصلہ کر تے ہوئے الزام اور ثبوت کی سچائی بھی اہم نکتہ ہوتے ہیں اور قصور وار ثابت ہونے کے معاملے میں سزا کی سنگینی بھی اس مسئلے پر منحصر کرتی ہے ۔ اپنے پہلے احکامات کا ذکر کرتے ہوئے بنچ نے کہا کہ ضمانت سے انکار کر مختاری سے محروم رکھنے کا مقصد سزا دینا نہیں ہے بلکہ یہ انصاف کے مفاد پر مبنی ہے ۔ عدالت نے کہا کہ ضمانت کیلئے عرضی دینے والے شخص کی پچھلی زندگی کے بارے میں پڑ تال کر نا دلائل پر مبنی ہے یہ پتہ لگایا جانا چاہےے کہ کیا اس کا ریکارڈ خراب ہے ۔خاص طور پر ایسا ریکارڈ جس سے یہ اشارہ ملے کہ وہ ضمانت سے باہر آنے پر سنگین جرائم انظام دے سکتا ہے سپریم کورٹ کا یہ حکم کتنا صحیح ثابت ہو اس کی مثال ہمیں جلدی مل گئی کیوں کہ ضمانت پر آئے بدمعاش نے 52جرائم کی وارداتیں کر ڈ الیں اس کے باوجود وہ پولس کو کئی دن تک تھکاتا رہا ۔ زیادہ تر واردات دوارکا میں کی گئی بدمعاش اتنا شاطر ہے کہ اس نے بائک کے ذریعے یہ وارداتیںانجام دیں آخر کار دوارکا اے ٹی ایس نے اس کو راجستھان کے گونگا میڑھی سے گرفتار کیا ڈی سی پی سنتوش کمار مینا نے بتایا کہ ارجن عرف گوپو پر 26معاملے مختلف تھانو ں میں درج ہیں ۔ اب تک وہ 100سے زیادہ چین جھپٹنے کی وارداتیں انجام دے چکا ہے۔ اس کے باوجود اس نے ضمانت کے بعد پھر 52وارداتیں کر ڈالیں ۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کو چھوٹی عدالتوں کو ملزم کا بیک گراونڈ کی جانچ کرا کر ضمانت دینی چاہئے اس پر تھوڑی سی لاپر واہی کا فائدہ گوپو جیسے جرائم پیشہ اٹھاتے ہیں۔ (انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟