دیدی کے در پر مودی کی دستک

مغربی بنگال کی لوک سبھاکی 42سیٹوںپر چناوٌ دونوں وزیر اعظم مودی اور ترنمول کانگریس کی چیف اور وزیر اعلی ممتا بینرجی کے لئے ناک کا سوال بن گیا ہے۔ یہاں 7مرحلوں میں پولنگ ہوگی۔ 11اپریل 18اپریل 23اپریل او ر29اپریل اور پانچواں مرحلہ میں 06مئی کو اور چھٹے مرحلے میں 12مئی اور آخری اور 7ویں مرحلے میں 19مئی کو ووٹ پڑیں گے۔ 2014میں لوک سبھا چناوٌ میں ترنمول کانگریس نے 34فیصد ووٹ لیکر 34سیٹیں جیتی تھی بلکہ کمیونسٹ پارٹی کو 29.71ووٹ ملے تھے جبکہ وہ صرف 2سیٹیں ہی جیت پائی تھی۔ بھاجپا کو 17.02فیصد ووٹ اور 2سیٹیں جبکہ کانگریس کو 9.58فیصد اور 4سیٹیں ملی تھی۔ لوک سبھا چناوٌ میں بھاجپا ووٹ فیصد کی کسوٹی پر تیسرے نمبر پر تھی مودی لہر میں 10.88فیصد اضافے کے ساتھ اس کے ووٹروں کا فیصد 17.02فیصد تک پہنچ گیا تھا اس بار ترنمول کانگریس کیلئے سب سی سکون کی بات یہ ہے کہ کہیں بھی سرکار مخالف ماحول نہیں ہے جسے لہر کہا جا سکے۔ سڑک ،بجلی ،سینچائی اور دیہات تک پانی پہنچانے کے سیکٹر میں کام ہوئے ممتا سرکار کی طاقت ہے اس مرتبہ قومی شہری رجسٹرمغربی بنگال میں بڑا اشو ہے۔ بنگلہ دیش سے ریاست میں گھس آئے لوگوں نے اب برسوں سے یہاں اپنے آپ کو محفوظ کرلیا ہے مرکزی سرکار اور بھاجپا شہری ترمیمی بل کے تحت گھس پیٹھیوں کو واپس بھیجنا چاہتی ہے۔ دونوں وزیر اعظم اور بھاجپا صدر نے اپنی ریلیوں میں گھس پیٹھیوں کو ریاست سے باہر نکالنے کا وعدہ کیا ہے۔
بھاجپا صدر امت شاہ اپنی چناوٌریلیوں میں با ر بار کہتے چکے ہیں اگر ان کی پارٹی اقتدار میں آئی تو ریاست میں این آر سی نافذ کر یں گے وہیں ممتا اس کی جم کر مخالفت کررہی ہیں۔ روز گار پیدا کرنے اقلیتوں کو رجھانا کرپشن ،مرکز میں اگلی حکومت بنانے میں ترنمول کانگریس کا اہم رول ہوگا۔ بالا کوٹ ہوائی حملے کی سچائی بھی اہم ترین اشو بن کر سامنے آئے ہیں۔ مغربی بنگال میں بھاجپا نے اشو کھڑا کرنے کی اپنی مہارت سے ممتا بینرجی کو گھیر نے کی زمین تیار کرلی ہے۔ پنچایت چناوٌ میں تشدد اور ترنمول کانگریس پر زور زبردستی کا الزام بھاجپا کا بڑا اشو ہے۔ باقی بچے مرحلوں کو بھاجپا بھنانے میں لگی ہے۔ چائے اسٹال پر چائے بنانے اور پلانے کا کام کررہے لڑکوں کی اب بھی نریندر مودی پہلی پسند ہیں۔ کھرن پور شاہراہ ہو یا کنٹائی کا بس اڈہ دونوں جگہوں پر ایسے لڑکوں نے کہا کہ مودی کو پھر آنا چاہئے ایک نوجوان کی دلیل ہے مغربی بنگال میں تبدیلی اقتدار کی لہر آندھی میں بدلنے کےلئے وقت لیتی ہے کانگریس نے آزادی کے بعد قریب ڈھائی دہائی تک تو لیفٹ پارٹیوں نے تین دہائی تک اس ریاست میں راج کیا۔ آج یہ دونوں حاشیہ پر ہیں ممتا کی ابھی ایک دہائی پوری نہیں ہوئی ہے مگر وہاں بھاجپا لہر کی اب آہٹ سنائی دینے لگی ہے حالانکہ ترنمول کانگریس نے بھی کافی کام کیا ہے۔ یہاں لوگ تبدیلی کی بات کیوں کریں۔ ؟اچھا کام ہورہاہے اگر ممتا بینرجی ملک کا اگلا وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہی ہیں تو انہیں مغربی بنگا ل کی زیادہ سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنی ہوگی۔ بھا جپا بھی بہت زور لگا رہی ہے دیکھیں ان کی کوشش کیا رنگ لاتی ہے ؟
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟