دراوڑسیاست کے گڑھ میں سیندھ لگانے کی کوشش

قومی سیاست میں دھاک جمانے کے باوجود دیش کی دو بڑی پارٹیاں کانگریس اور بی جے پی تمل ناڈو میں اپنی پیٹھ بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں اس بار دونوں ہی پارٹیاں علاقائی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر تمل ناڈو میں اپنی بنیاد پختہ کرنے کی کوشش میں لگی ہیں ۔دیکھا جائے تو اس بار کے لوک سبھا چناﺅ میں تمل ناڈو کا پس منظر دلچسپ بنتا جا رہا ہے ۔چونکہ پہلی بار ہوگا جب بڑی علاقائی پارٹی اناّ ڈی ایم کے اور ڈی ایم کے اپنے سب سے اثر دار چہرے جے للتا اور کرونا ندھی کے بغیر چناﺅ میدان میں اتری ہیں حالانکہ دونوں پارٹیاں اس دوران اپنے وارث چن چکی ہیں ۔لیکن سامنے پارٹی کی وراثت کو برقرار رکھنے کی چنوتی ہے ایسے میں ایک طرف بڑی دراوڑ پارٹیوں ڈی ایم کے اناّ ڈی ایم کے کے سامنے خود کو بچانے کی چنوتی ہے وہیں دوسری طرف کانگریس اور بھاجپا دراوڑ پارٹیوں کے سہارے تمل سیاست میں پیٹ بنانے کے موقعہ کی تلاش میں ہیں ۔تمل ووٹروں کی ایک بڑی خوبی رہی ہے کہ وہ جسے اپناتے ہیں جی بھر کر اس کی جھولی بھرتے ہیں پچھلی مرتبہ اناّ ڈی ایم کے کو یہاں سے 37سیٹیں ملی تھیں دوسرے مرحلے میں اٹھارہ اپریل کو تیرہ ریاستوں میں پھیلی 97لوک سبھا سیٹوں پر ہو رہے چناﺅ میں تمل ناڈو کی 39سیٹیں یو پی اے کی امیدوں کا بڑا گڑھ ہے ساﺅتھ کے اس قلعہ میں بھاجپا کو اتحادیوں ک ساتھ سیندھ ماری سے روکنے کے لئے یو پی اے کا کنبہ پورا زور لگا رہا ہے ۔تمل ناڈو میں ڈی ایم کے اور کانگریس اتحاد کی 39سیٹوں اور پوڈیچیری کی ایک سیٹ کو پچھلے ایوان میں اپنے نمبروں کی تعداد بڑھانے کے لحاظ سے کافی اہم مانا جا رہا ہے ۔تمل ناڈو اور پوڈوچیری کو ملا کر 48سیٹوں میں سے ڈی ایم کے 20اور کانگریس 10اور دوسری سیٹوں پر اسکی اتحادی پارٹیاں لڑ رہی ہیں بھاجپا نے اناّ ڈی ایم کے ساتھ اس بار گٹھ بندھن کیا ہے پچھلے چناﺅ میں بھاجپا نے کنیا کماری سیٹ جیتی تھی اس بار بھاجپا پانچ سیٹوں پر لڑئے گی ۔دراصل لمبے عرصے کے بعد تمل ناڈو کا چناﺅ علاقائی چھوٹی موٹی پارٹیوں کی غیر موجودگی میں ہو رہا ہے ۔واقف کار مانتے ہیں کہ اناّ ڈی ایم کے چیف رہی سورگیہ جے للتا اور ڈی ایم کے کے سروے سرو ا رہے ایم کرونا ندھی کی موت کے بعد تمل ناڈو کی سیاست میں ایک خلا سا نظر آرہا ہے ۔دونوں پارٹیوں کی موجودہ قیادت پرانے سورماﺅں کی مقبولیت کے آس پاس بھی نہیں ہے ۔دونوں طرف آندولنی رشہ کشی شباب پر ہے ایسے میں صوبے کے لوگ کس پر مہربان ہوں گے کہنا مشکل ہے فی الحال واقف کاروں کا خیال ہے کہ اس بار الٹ پھیر بھی ہو سکتا ہے ۔کرناٹک کو چھوڑ دیں تو بھاجپا کی ہندتوکہ اپیل کا جنوبی بھارت میں کبھی بھی زیادہ اثر نہیں رہا ۔ہندی کو بڑھاوا دینے کا معاملہ یا پھرا ٓبادی یا میسول کے بٹوارے کی کوشش ہو ،مرکز میں یہ کوشش جنوبی ہندوستان کو کبھی پسند نہ آئے اس چناﺅ میں ڈی ایم کے کا پرلا بھاری لگتا ہے اسی وجہ سے یہاں کانگریس کو فائدہ ہو سکتا ہے بھاجپا اور اناّ ڈی ایم کے اتحاد کیا دراوڑ سیاست کے گڑھ میں سیندھ لگا پائے گا ؟یہ تو چناﺅ نتیجہ آنے کے بعد ہی پتہ چلے گا ۔

(انل نریندر )

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟