بڑھتی عدم رواداری ،اظہار رائے کی آزادی پر سنگین خطرہ

اداکار کا مقصد سوال اُٹھانا اور للکارنا ہوتا ہے لیکن سماج میں عدم رواداری بڑھ رہی ہے ۔اور منظم گروپ اظہار رائے کی آزادی کے حق کے لئے سنگین خطرہ پیدا کر رہے ہیں ۔یہ سخت تبصرہ سپریم کورٹ نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کیا ۔فن ،ادب اور عدم رواداری کا شکار ہوتے رہیں گے اگر ریاستیں فنکاروں کے حقوق کی حفاظت نہ کریں ۔ جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس ہیمنت گپتا کی بنچ ایک بنگلہ فلم بھوشیہ تیر مورت پر لگی پابندی کے خلاف سماعت کر رہی تھی ۔بنچ کا کہنا ہے کہ فلم کے اندر دکھائے گئے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ سماج میں ایک طرح کی عدم رواداری بڑھ رہی ہے اور یہ سماج میں دوسروں کے حقوق کو نامنظور کر رہی ہے ،ان کے نظریات کو آزادانہ طریقہ سے پیش کرنے اور انہیں پرنٹ ،تھیٹر ،یا سیلولائڈ میڈیا ،میں پیش کرنے کے حق کو مسترد کر رہی ہے ۔آزادانہ تقریر اور اظہار رائے کے حق کے وجود کے لئے منظم گروپوں اور مفادات نے ایک سنگین خطرہ پیدا کر دیا ہے ۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ اقتدار اعلیٰ کو یہ دھیان رکھنا چاہیے کہ ہم جمہوریت میں محض اس لئے رہتے ہیں کیونکہ ہمارا آئین ہر شہری کی حق کی آزادی کو تسلیم کرتا ہے ۔بنچ نے کہا کہ پولس اخلاقیات کی ٹھیکیدار نہیں ہے ۔قانون و انتظام کا حوالہ دے کر فلم کی اسکرینگ نہیں روک سکتے یہ عمل خطرناک ہے راجیہ اپنے حقوق کا من مانے طریقہ سے استعمال نہیں کر سکتے ۔بنچ نے یہ بھی کہا کہ فلم سینسر بورڈ سے سرٹیفائڈ فلم کو کوئی دوسری اتھارٹی سے اجازت لینا درکار نہیں ہے ۔اکثریت طے نہیں کر سکتی کہ فن کاروں کا نظریہ کیا ہونا چاہیے اور کیا نہیں ۔اظہار رائے کے حق کا تحفظ کرنا ریاستی سرکار کی ذمہ داری ہے ۔تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک جمہوری نظام نے کوئی حکومت ،سیاسی پارٹی یا دیگر سیاسی مذہبی گروپ صرف اس لئے کسی ڈاکومینٹری یا فلم کی نمائش میں رکاوٹ ڈالتے ہیں کہ کسی کی سیاست کی حقیقت پر اس سے چوٹ پہنچتی ہے ۔یہ تشویش کی بات ہے کہ خاص طور پر جب ہمارے دیش کے آئین میں اپنی بات رکھنے اور دکھانے کے حقوق ملے ہوئے ہیں ۔یہ سمجھنا مشکل ہے کہ مغربی بنگال حکومت نے بنگلہ فلم کی ریلیز میں آخر رکاوٹ کیوں ڈالی ؟کیا ریاستی حکومت نے فلم کی نمائش میں اس لئے اڑچن ڈالی کیونکہ اس فلم میں سیاسی طنز کا سہارا لے کر الگ الگ پارٹیوں کو کٹگھرے میں کھڑا کیا گیا ہے ۔ان میں ترنمول کانگریس بھی شامل ہے ۔قاعدے سے فلم پر نقطہ چینی کرنے یا اسے روکنے کے بجائے ترنمول کانگریس ریاست میں اس کی سرکار کو یہ سوچنا چاہیے تھا کہ جمہوری بالا دستی کو بنائے رکھنے میں کہاں کمی پائی گئی ۔سیدھے اس کی پردہ سمیں پر روک لگا کر اس نے یہ ثابت کیا کہ دیش کی جمہوری روایات اور قانون و نظام کی اسے کوئی پرواہ نہیں ہے ۔یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمار ا سپریم کورٹ مضبوط ہے اور ایسی غیر جمہوری پابندیوں کو مسترد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔لیکن اس میں شبہ ہے کہ اب بھی کچھ مفاد پرست گروپ و سیاسی پارٹیاں انگلی اُٹھائیں گی ؟

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟