پیسہ اکٹھا کرنے کا نیا طریقہ چناوی بانڈ!

چناوٌ کے ٹھیک درمیان چناوی بانڈ کو لیکر تنازعہ تیزی سے بڑھتا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ نے ایک رضا کار تنظیم کی عرضی پر سبھی سیاسی پارٹیوں کو چناوی بانڈ اور چندہ کی معلومات دینے کے لئے 30مئی کی میعاد طے کردی ہے۔ سال 2017-18میں کچھ دوسو اکتیس کروڑ روپے چناوی بانڈ میں سے اکیلے 210کروڑ روپے پانے والی بھاجپا مرکزی حکومت میں ہے اور وہ اس بانڈ کی پوری حمایت کررہی ہے۔ بانڈ کو لےکر رضا کاتنظیم اور چناوی کمیشن نے اندیشہ جتایا ہے یہ بھارت کی مختاری کے لئے خطرہ ہے اور اس سے جمہوریت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سب سے پہلے جانتے ہیں کی کیا ہے چناوی بانڈ۔ مرکزی حکومت نے 2017میں ایک مالی بل پاس کیا جس کے تحت چناوی بانڈ شروع کئے گئے یہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا کی قائم برانچوں سے حاصل کئے جاسکتے تھے۔ اس کی قیمت ایک ہزار سے ایک کروڑ روپے تک رکھی گئی تھی۔ عام شہریوں سے لےکر کارپوریٹ گھرانے تک اپنی پسند کی پارٹی کو عطیہ کے لئے ایک ہزار ،ایک لاکھ ،دس لاکھ،اور ایک کروڑ روپے کے بانڈ خریدے جاسکتے تھے۔ بانڈ س خرید تے وقت بینک کے وائی سی یعنی گراہک کی جانکا ری دیتا ہے لیکن جس پارٹی کو یہ دیئے جارہے ہیں اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ بانڈ دینے والے کا نام اجاگر کرے۔ بانڈ ہر وقت دکھتے بھی نہیں ہے۔ انہیں ہر سہ ماہی میں دس دن کے لئے شاخوں میں فروخت کئے جاتے ہیں ایک بار خریدنے کے بعد 15دن سے ان میں متعلقہ پارٹی کے نام ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ ورنہ یہ کینسل ہوجاتی ہے ،چناوی بانڈ پر سخت موقف اپناتے ہوئے سپریم کورٹ نے سبھی پارٹیوں کو 15مئی تک ملنے والے چندے کی معلومات سیل بند لفافہ میں چناوٌ کمیشن کو دینے کو کہا ہے۔ جمعہ کو عدالت نے اس اہم اور متنازعہ بانڈ پر فوری طور روک نہیں لگائی ہے لیکن اس کے راز کو اندھیرے سے اجالے میں لانے کا اشارہ ضرور دی دیا ہے۔ حالانکہ خفتگی کے نام پر یہ اندھیراہ عوام کیلئی ابھی بھی قائم رہنی والا ہی۔ لیکن تمام سیاسی پارٹیوں کو بند لفافہ میں بانڈ سے حاصل عطیہ اور عطیہ دہندہ دونوں کی اطلاعات چناوٌ کمیشن کو 30مئی تک دینی پڑی گی۔ غور کرنے کی بات ہے کہ ان بند لفافہ کو کھولنے کا حق عدالت نے چناوٌ کمیشن کو بھی نہیں دیا ہے عدالت نے اس بات پر توجہ دی ہے کہ حکمراں پارٹی اس بانڈ سی زیادہ فائدہ اٹھارہی ہیں ایک اندازہ کے اشارہ ہے کہ کل چناوی بانڈ کا 95.5فیصد سے 97فیصد حصہ صرف حکمراں پارٹی کے کھاتے میں گیا ہے بانڈ استعمال سے پہلے ہی مرحلہ میں ثابت ہوجاتاہے جو بھی اقتدار میں رہے گا وہ اس کے فائدہ زیادہ لیگا۔ عدالت میں سرکار کا موقف رکھتے ہوئے اٹارنی جنرل نے جو دلیل دی وہ بتاتی ہے کہ سیاسی پارٹیاں چندہ میں شفافیت لانے کی حمایتی نہیں ہیں۔ پہلے تو سرکار کی طرف سے کہا گیا بڑی عدالت چناوٌ تک اس پر فیصلہ نہ دے پھر یہاں تک کہا ہے کہ ووٹر وں کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہئے کہ پارٹیوں کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے۔  لیکن سپریم کورٹ کے فیصلہ سے کم سے کم اتنا تو ہوگا کہ یہ بانڈ کتنے کے خرید ے گئے اور کس نے خرید ے۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟