این ڈی اے کو 263سے 283،یوپی اے کو 115سے 135سیٹیں ملنے کا دعوی !

چناوٌ کا وقت ہے اپنی پارٹی کی ہوائی بنانے کےلئے ہرسیاسی پارٹی اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔ اپنی دعویداری مضبوط کرنے کےلئے کئی پارٹیوں کے نیتا طرح طرح کے فنڈے لگا رہے ہیں ان میں سروے کی بھی پیشگوئی شامل ہے اس کے لئے ناتو انہیں ورکروں کی ٹیم چاہئے او رنا ہیں انہیں کہیں جانا ہوگا۔ بس آفس میں بیٹھ کر من چاہی سروے رپورٹ تیار ہوجاتی ہے۔ بس نیتا جی کو اس فرضی سروے کو فروخت کرنے آنا چاہئے جس نے بیچ دیا اس کی بلے بلے۔ کچھ نیتا یہ کام کرنے میں ماہر ہے پارٹیاں اپنا من پسند سروے کرواتی ہے اور ووٹروں کو ان سروے کے ذریعہ متاثر کرنا بھی چاہتی ہے ایسا نہیں کہ سبھی سروے فرضی ہوتے ہیں۔ کچھ تنظیم ایسی ضرور ہیں جو اپنی طرح سے محنت کرکے اور کچھ سیمپل سروے کرتے ہیں لیکن ان کی کمی یہ رہتی ہے کہ یہ کچھ چنندہ پارلیمانی حلقوں میں گنے چنے ووٹر وں سے سوال پوچھتے ہیں۔ اس سے ان علاقوں کا اندازہ ضرور ہوجاتا ہے لیکن بھارت جیسے بڑے دیش میں ہوابنانے میں کبھی کبھی یہ ناکام ہوجا تے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ چناوی سروے اور فائنل نتیجوں سے میل نہیں کھاتے ان انتخابات کے بارے میں ایک چیز تو صاف لگتی ہے کہ 2019کے لو ک سبھا چناوٌ میں نا تو کوئی ہوا ہے اور ناہی کوئی ±خاص اشو ہے جو اہم رول نہیں نبھارہا ہے۔ کوئی ایسی لہر یا اشو نہیں ہے جو سبھی ریاستوں میں اثر انداز ہو۔ 2014میں ضرور مودی حمایتی اور کانگریس مخالف لہر تھی اسی وجہ سے بھاجپا نے گیار ہ ریاستوں یوپی ،راجستھان ،ایم پی ،بہار ،دہلی ،گجرات ،ہریانہ ،چھتیس گڑھ ،ہماچل پردیش ،اتراکھنڈ ،اورجھارکھنڈ کی 216سیٹیں یعنی 90فیصد سیٹیں جیتی تھی۔ لیکن اس بار اشارہ ہے کہ بھاجپا نے تین ریاستوں میں مدھیہ پردیش ،چھتیس گڑھ ،دہلی اور جھارکھنڈ میں اپنی زمین گنوادی ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ بھاجپا ان ریاستوںمیں اپنی 50فیصد سیٹیں دوبارہ جیت لیں تو بھی اس کی 85سیٹیں کم ہوسکتی ہیں۔
کئی اقتصادی اسباب (نوٹ بندی ،جی ایس ٹی )کو ملاکر منفی اثر ذاتوں کے اتحاد میں نئی سیاسی صور ت حال پیدا کردی ہے مودی اس سے نمٹنے کےلئے دہشت گردی کے خلا ف بالا کوٹ سرجیکل اسٹرائیک اور راشواد کو سامنے رکھ کر اپنی وکالت کررہے ہیں۔ بھاجپا کی بوکھلاہٹ اس سے بھی پتہ چلتی ہے ہر ایراغیرا پارٹی سے کسی بھی قیمت پر تال میل کررہی ہے اس سے لگتا ہے کہ بھاجپا لیڈر شپ کو بھی لگ رہا ہے کہ شاید وہ اپنے دم خم پر سرکار نہ بنا سکے ایسی صورتحال میں اپنے ساتھیوں کی مدد لینی پڑ سکتی ہے بھاجپا کی سب سے بڑی تشویش سپا بسپا اتحاد ہے دوسری طرح جس طرح مشرقی اترپردیش میں پرینکا گاندھی بڑی برادریوں کے ووٹروں کے راغب کررہی ہیں اس میں بھی بھاجپا کی پریشانی بڑھای ہے۔ ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی جیسے نیتاوٌں کی ناراضگی سے کچھ برہمن ووٹ کانگریس کی طرف لوٹ سکتا ہے۔ دہلی میں آپ اورکانگریس کے درمیان تال میل کے لئے رضا مندی ہوچکی ہے اور بھاجپا سبھی سات سیٹیں ہار سکتی ہے۔ گجرات کی سبھی سیٹیں جیتنے والی بھاجپا سے اس مرتبہ کانگریس پانچ سیٹیں چھین سکتی ہے حال ہی میں سی ایس ڈی۔ لوک نیتی ،دینک بھاسکر اور دی ہندوکا چناوٌ سروے آیا تھا۔ ووٹ شیئر بڑھنے کے باوجو د کئی سیٹیوں پر اپوزیشن کے اتحاد کی وجہ سے بھاجپا کی سیٹوں میں کمی آرہی ہے۔ 2014میں کانگریس کو 44سیٹیں اور اس کے ساتھیوں کو 15اور بھاجپاساتھیوں کو 283پلس 53لیفٹ کو بارہ اور دیگر کو 136سیٹیں ملی تھی اب چناوٌ سے پہلے تازہ سروے میں 2019چناوٌ میں کانگریس کو 75سے 84اور اتحادیوں کو 41سے 51سیٹیں بھاجپا کو 222سے 232سیٹیں اور ساتھیوں کو41سے 51جبکہ لیفٹ کو پانچ سے 15اور دیگر کو 88سے 98ملنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ سروی میں ایک دلچسپ پہلو نکل کر آیا ہے کہ 40فیصد ہندوستانی مانتے ہیں کہ دیش صحیح سمت میں ہے لیکن ساوٌتھ انڈیا کی ریاستوں میں صورتحال الٹ ہے یہاں45فیصد لوگ کہتے ہے کہ دیش غلط سمت میں جارہا ہے۔ پہلی بار ووٹر س کی پہلی پسند نریندر مودی پر دھان منتری کے طور پر ہیں۔ اس سروے سے یہ صاف ظاہر کہ این ڈی اے کا وو ٹ شیئر 2014سے مسلسل گھٹا جارہا ہے اور یوپی اے کا بڑھتا جارہا ہے۔ باقی تو ای وی ایم مشین کھلنے پر ہی پتہ چلے گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟