پہلے مرحلے میں کہیں کہیں جھڑپیں ای وی پر ہنگامہ کل ملا کر چناﺅ ٹھیک رہا

لوک سبھا چناﺅ کے پہلے مرحلے میں 11اپریل کو 20ریاستوں کی 91سیٹوں پر چناﺅ ہو گیا ۔چڑھتے پارے کے باوجود ووٹروں نے اس میں جم کر جوش دکھایا ۔چناﺅ کمیشن کی جانب سے جاری اعداد شمار کے مطابق بہار میں 2014کے مقابلے قریب ڈھائی فیصدی زائد ووٹ پڑے وہیں اتراکھنڈ اور اترپردیش میں پچھلے چناﺅ کے مقابلے کچھ کم ووٹ پڑے لیکن الیکشن کمیشن نے کہا کہ فائنل اعداد شمار میں 2سے 3فیصد ی اضافہ ہو سکتا ہے چونکہ 6بجے کے بعد بھی کہیں پر لوگ ووٹ ڈالنے کے لئے قطاروں میں لگے ہوئے تھے ۔جموں و کشمیر کی بالا مولہ اور جموں سیٹ پر دہشتگردوں کی دھمکیوں کو در کنار کر لوگوںنے قطاروں میں کھڑے ہو کر ووٹ کا انتظار کیا اور ووٹ ڈالا ۔دونوں سیٹوں پر پانچ بجے تک قریب 57فیصدی ووٹ پڑے وہیں دہشتگردی سے متاثرہ کپواڑہ میں 51.7فیصدی ووٹ پڑے ۔ای وی ایم مشینوں کی خرابی کی شکایتیں اترپردیش کے بجنور ،اور مہاراشٹر کی چھ پارلیمانی سیٹوں پر اور آندھرا پردیش میں کچھ پولنگ بوتھ پر ای وی ایم میں خرابی کی شکایتیں ملیں ۔ریاست کے وزیر اعلیٰ چندر بابو نائیڈو کے مطابق 150پولنگ بوتھ پر ای وی ایم کی شکایتیں ملی ہیں ۔وہیں ٹی ڈی پی اور وائی ایس آر سی پی کے ورکروں میں جھڑپیں ہوئیں۔جس وجہ سے دو لوگوں کی موت بھی ہو گئی ۔آندھرا اسمبلی کے اسپیکر کوٹیلہ شیو پرشاد زخمی ہوئے ۔کیرانہ رسولپور گاﺅں میں بغیر پہچان کے ووٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے لوگوں کو روکنے کے لئے سیکورٹی فورس کو ہوائی فائرنگ کرنی پڑی ۔پولنگ شروع ہونے کے کچھ دیر بعد مظفر نگر سے بھاجپا امیدوار سنجیو بالیان نے الزام لگایا کہ کچھ لوگ برقعہ میں آکر فرضی ووٹ ڈال رہے تھے ۔وہیں بسپا نیتا ستیش چندر مشرا نے الزام لگایا کہ یوپی کے کئی بوتھوں پر حکام اور پولس نے دلت ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے روکا ۔پہلے مرحلے میں جس جوش کے ساتھ ووٹروں نے حصہ لیا یہ جمہوریت کے لئے اچھا اشارہ ہے لیکن ووٹروں کا بےدار ہونا اور پولنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا پہلہ پڑاﺅ ہے ۔اس مرتبہ لوک سبھا چناﺅ خاص ہیں ۔اس لئے نہیں کہ آنے والے پانچ برسوں تک کون راج کرئے گا مرکز میں اس کا جواب ان انتخابات سے مل جائے گا بلکہ اس لئے چناﺅ میں کچھ ایسے اشو دوبارہ سے اُٹھائے جا رہے ہیں جو کچھ وقفہ پہلے تک سیاسی غور خوض کے مرکز میں نہیں تھے ۔جمہوریت کا مطلب صرف اتنا نہیں ہے کہ وہ کچھ ممبران پارلیمنٹ اور وزراءکو چن لیں سرکار بنانے کے لئے جمہوریت میں کن موضوعات پر غور خوض چل رہا ہے اس سوال کے جواب سے یہ طے ہوتا ہے کہ ہماری جمہوریت کتنی پختہ ہے ۔صرف ذات پات کے تجزیوں یا مذہبی اشوز کو بڑھکا کر چناﺅ جیتا نہیں جا سکتا ۔یہ بات آہستہ آہستہ قومی دھارا کے سیاسی رائے زنی میں شامل ہو رہی ہے ۔یہ ایک اچھا اشارہ ہے ۔امیدواروں کا معیار بھلے ہی نہ سدھرے کنبہ پرستی مسلسل بڑھتی نظر آرہی ہے چناﺅ جیتنے کے لئے تمام ہتھکنڈے اس بار اپنائے جا رہے ہیں اور پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے ۔لیکن سب سے منفی پہلو کے درمیان پولنگ فیصد ایک امید کی کرن ضرور جگاتا ہے ووٹر جاگے گا ٹھیک سے امیدوار کو پرکھے کا اور اشوز کو سمجھے گا تو تبھی ہماری جمہوریت مضبوط ہوگی ۔عام طور پر ایک تلخ سچائی یہ بھی ہے کہ شہر کے علاقہ میں ووٹنگ فیصد کم ہوتی ہے جہاں تعلیم یافتہ سرکاری طبقہ سہولت اور عیش و آرام میں رہتا ہے ایسا طبقہ ڈرائنگ روم میں اور اپنے ائیر کنڈیشنر چلا کر دیش کے حالات پر لمبی چوڑی اپنی رائے تو ضرور ظاہر کرتا ہے ۔لیکن ووٹ کے لئے لائن میں لگنا ان کے لئے قطئی ضروری نہیں ہوتا ۔ایسا نہیں ہے ذات پات کے تجزیوں میں یا مذہبی اشوز کی ابتدائی ترجیحات ختم ہو گئی ہیں لیکن اب ہر پارٹی کو یہ بھی بتانا پڑ رہا ہے کہ غریب ،کسان یا مختلف طبقات کے لئے ان کی کیا یوجنا ہے ان کے چناﺅ منشور میں کیا کیا وعدے کئے گئے ہیں ۔ان اسکیموں کے لیے مالی وسائل کہاں سے جٹائے جایں کے ؟جب چناﺅ کمیشن سمیت پورا دیش پولنگ بڑھانے کے لئے کوشش کر رہا ہے ،تب ایک ایک بے حد قیمتی ہو جاتا ہے ۔جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے بھلے ہی کوئی قربانی نہ دے لیکن ووٹ ڈال کر کے ایک مثبت اشتراک کی امید تو جاگتی ہی ہے ۔چناﺅ کمیشن کل ملا کر پہلے راونڈ میں اچھے نمبر لے کر کامیاب رہا ہے ۔امید کی جاتی ہے کہ منصافانہ اور تشدد سے پاک باقی مرحلوں کے چناﺅ بھی اسی طرح مکمل ہوں گے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟