کینیا کے کالج میں دہشت گردانہ حملہ،150 افراد کی موت

کینیامیں گیریسا یونیورسٹی کالج کمپلیکس میں ہوئے دہشت گردانہ حملے نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ جمعرات کی صبح سویرے اسلامک آتنکی تنظیم الشباب کے دہشت گردوں نے کمپلیکس پر قبضہ کرلیا اور رات تک دہشت گردوں سے کمپلیکس کو آزاد کرایا جاسکا۔صبح قریب5 بجے کچھ مسلح دہشت گرد صومالیہ کی سرحد سے ملحق اس یونیورسٹی کمپلیکس میں تابڑ توڑ فائرننگ کرتے ہوئے گھس آئے تھے۔ آتنکیوں کی اندھا دھند فائرنگ میں 150 لوگوں کے مارے جانے اور 65 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ زیادہ تر ان میں طلبا بتائے جاتے ہیں۔ رات میں کینیا کے حکام نے یونیورسٹی کالج کمپلیکس میں کارروائی پورا کرنے کی جانکاری دیتے ہوئے کہا کہ چار حملہ آور دہشت گردوں کو ڈھیر کردیا گیا ہے۔ بڑی تعداد میں طالبعلم زخمی ہوئے ہیں۔ نقاب پوش بندوقچی اندھا دھند گولیاں چلاتے ہوئے کمپلیکس میں گھسے، ریڈ کراس(کینیا) کے مطابق حملہ آوروں نے طلبا میں مسلم اور عیسائیوں کو الگ کر عیسائیوں کو یرغمال بنا لیا۔ بعد میں دہشت گردوں کے ترجمان شیخ علی محمود رگے نے فون پر بتایا کہ مسلم طلبا کو چھوڑدیا گیا ہے لیکن کتنے عیسائی یرغمال بنائے گئے یہ نہیں بتایا۔ کالج کے ایک طالبعلم کالس ویتانگولا نے بتایا کہ بندوقچی شور مچاتے پھڑپھڑاتے ہاسٹل میں گھسے، وہ چلا رہے تھے چھپے ہوئے سبھی طالبعلم باہر آجائیں، چاہے مسلمانوں ہو یا عیسائی۔ اگر تم عیسائی ہو تو دیکھتے ہی گولی ماردیں گے۔ ہر دھماکے کے ساتھ مجھے لگا کہ میں تو مرا۔ تبھی کچھ سکیورٹی جوان کھڑکی کے راستے اندر گھسے اور مجھے اور میرے کچھ ساتھیوں کو باہر نکال لائے۔ گیریسا یونیورسٹی کالج 2011ء میں ہی کھلا ہے۔ علاقے میں اعلی تعلیم کیلئے یہ اکیلا یونیورسٹی کالج ہے۔ یہ صومالیائی سرحد سے محض 150 کلو میٹر دوری پر قائم ہے۔ دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے وابستہ الشباب 2011ء سے ہی کینیا میں دہشت گردانہ حملے کرتی رہی ہے۔ یہ کینیا کے ذریعے الشباب کے خاتمے کے لئے صومالیہ میں فوج بھیجنے کی مخالفت کررہے ہیں۔الشباب نے 2013ء میں نیروبی کے ایک مال پر بھی حملہ کیا تھا۔ اس میں 66 لوگ مارے گئے تھے۔ اس حملے نے پاکستان کے ایک اسکول پر حملے کی بھی یاد تازہ کردی ہے جس میں 140 سے زائد لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ مرنے والوں میں132 بچے تھے۔ گیریسا یونیورسٹی حملے کے پیچھے مطلوب دہشت گرد محمد محمود کا ہاتھ بتایا جارہا ہے۔ کینیا حکومت نے محمد محمود کے بارے میں اطلاع دینے والے کو دو کروڑ شلنگ (13366550 روپے) کا انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔ وزارت داخلہ نے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹ پر محمود کی تصویر بھی پوسٹ کی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کینیا میں ہوا دہشت گردانہ حملہ خوفناک ہے۔ یونیورسٹی کے طالبعلموں کو اس طرح سے نشانہ بنانے کا واقعہ بہت پریشان کرنے والا ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ یہ اسلامی دہشت گرد گروپ اب بچوں کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں۔ پہلے پیشاور اور اب کینیا کے طلبا۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بانکی مون نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے آتنکی حملہ بتایا ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟