متنازعہ گجرات آتنک واد انسداد بل پھر پاس

دہشت گردوں اور مافیہ گروہوں کے صفائے کیلئے سخت قانون بنے اس پر شاید ہی کسی کو اعتراض ہو، لیکن منظم جرائم پر روک لگانے کے لئے کئی سخت نکات والے جس بل کو صدر جمہوریہ ماضی گذشتہ میں دو بار لوٹا چکے ہیں اور تیسری بار بھی ان کی منظوری کیلئے لٹکا ہوا ہے اسے چوتھی بار اسمبلی سے پاس کروا کر گجرات حکومت آخر کیا پیغام دینا چاہتی ہے۔ گجرات نے دہشت گردوں اور مافیاؤں پر لگام کیلئے جس سخت قانون کا نقشہ بنایا ہے اسے دیکھ کر ہر آدمی کو گھبراہٹ ہو سکتی ہے۔ گجرات نے 12 برسوں سے اس قانون کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے لیکن ہر مرتبہ معاملہ راشٹرپتی کے دروازے پر آکر اٹک جاتا ہے۔ ڈاکٹر اے ۔ پی۔جے عبدالکلام کے کے اعتراض کہ اس میں ٹیلی فون ٹیپنگ کو عدالت میں بطور ثبوت مان لینے کی شق پر تھا ، کیونکہ ہندوستانی ثبوت ایکٹ میں ٹیلیفون پر بات چیت کو ثبوت نہیں مانا جاتا۔ گجرات کنٹرول آف ٹریرازم اینڈ آرگنائزڈ کرائم (جی سی ٹی او سی)بل 2015 کے تحت پولیس کے سامنے ملزم کے اقبالیہ بیان کو قصور مانا گیا ہے۔ اس میں پولیس کو فون ٹیپنگ کرنے کا اختیار دینے اور ایسی ریکارڈنگ کو عدالت میں ثبوت کے طور پر منظور کیا گیا ہے۔ اسمبلی میں بحث کے دوران کانگریس لیڈروں نے ان شقات کو ہٹانے کی مانگ رکھی جن پر صدر جمہوریہ نے پہلے اعتراضات جتائے تھے۔ حالانکہ گجرات کے وزیر داخلہ رجنی کانت پٹیل نے کہا ہے کہ منظم جرائم سے نمٹنے کیلئے آئی پی سی اور سی آر پی سی کی موجودہ دفعات ناکافی ثابت ہوئی ہیں۔ یہ قانون پولیس اور انتظامیہ کو اتنے لامحدود اختیار دے رہا ہے جو کسی کے گلے نہیں اتر رہا ہے۔شبے کی بنیاد پر پولیس کسی کا ٹیلیفون سن سکتی ہے ، ریکارڈ کر سکتی ہے اور ضرورت پڑنے پر ثبوت کے طور پر پیش کرسکتی ہے۔ عدالتوں میں ثبوت کے طور پر اب تک یہ غیر تسلیم تھا۔دہشت گردوں اور منظم کرائم کے خلاف یہ سسٹم شاید کارگر ہو لیکن اس کا بیجا فائدہ اٹھا کر عام آدمی کی ذاتی زندگی میں بھی اگر سرکار کی دخل اندازی چلنے لگی تو بچائے گا کون؟ فون ٹیپنگ جیسے سنسنی خیز معاملے آچکے ہیں۔ اس میں پولیس اور انتظامیہ کو یہ ہتھیار سونپنا کیا آگ سے کھیلنا نہیں ہے؟ سابق صدر محترمہ پرتیبھا پاٹل نے پولیس افسر کے سامنے درج بیان کو ثبوت ماننے کی دفعات کو اعتراض آمیز بتایا تھا، کیونکہ پولیس کے سامنے بیان دباؤ میں ڈال کر بھی لیا جاسکتا ہے اس لئے آئی پی سی کی دفعہ کے تحت کسی مجسٹریٹ کے سامنے درج بیان کو ہی ثبوت مانا جاتا ہے۔ اس کے باوجود موجودہ بل میں دونوں شقات شامل ہیں اس میں چارج شیٹ دائر کرنے کی میعاد کو نجی مچلکہ پر رہا کرنے جیسی سہولیات بھی ہیں۔اگر یہ بل قانون بن گیا تو کسی کو بغیر الزام کے 6 مہینے تک جیل میں رکھا جاسکے گا اور اس کی رہائی بھی آسان نہیں ہوگی۔سامنتی ذہنیت والی پولیس ان شقات کے نام پر کچھ قہر ڈھا سکتی ہے کیا یہ بھی بتانے کی بات ہے ۔ اب ساری امید صدر سے ہی ہوں گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟