ایران کا بڑی طاقتوں کیساتھ نیوکلیائی معاہدہ

پچھلے قریب13 سال سے کشیدگی کا سبب بنے نیوکلیائی اشو پر ایران اور مغرب کی بڑی طاقتوں کے درمیان معاہدہ ہونے سے دنیا نے راحت محسوس کی ہے۔ 2002ء میں ایران ناتنز نیوکلیائی ریئکٹر میں یورینیم کو منظور حد سے زیادہ افزودگی کرنے کی اطلاع افشاں ہونے پر یہ تنازعہ کھڑا ہوا تھا۔ اس دوران سوئٹزرلینڈ میں آٹھ دنوں تک چلی بات چیت کے بعد ایران کے متنازعہ نیوکلیائی پروگرام پر سمجھوتے کے فریم ورک کو لیکر اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ایران نیوکلیائی مذاکرات قریب قریب کامیابی کے انجام تک پہنچ گئے ہیں۔P5+1 کے ممبران ملکوں اور ایران کے درمیان حتمی اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ ممبر ملکوں کے وزرا ئے خارجہ ایتوار سے سوئٹزرلینڈ کے سلانے شہر میں اکھٹے ہوئے۔ اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل کے پانچ مستقل ممبر ملکوں امریکہ، روس، چین، فرانس اور انگلینڈ کے علاوہ جرمنی بات چیت کے حق میں ہے، جبکہ دوسرا فریق خود ایران ہے۔ کئی دنوں کی جدوجہد کے بعد ایران اور امریکہ کے ساتھ ساتھ دنیا کی دیگر پانچ بڑی طاقتوں نے اس کا اعلان کیا۔ نیوکلیائی پروگرام کو لیکر وسیع سمجھوتہ فریم ورک تیار کرنے کی میعاد 30 جون ہے۔ممکنہ طور پر سمجھوتے میں جہاں ایران کے نیوکلیائی پروگرام کو محدود کرنے پر زور رہے گا وہیں بدلے میں ایران پر لگی بین الاقوامی پابندیوں میں ڈھیل دی جائے گی۔ ایران اگلے 10 برس میں مرحلے وار طریقے سے19 ہزار سینٹی فیوج کو گھٹا کر 10 ہزار اور پھر 6104 پھر5060 پر لے آئے گا۔یعنی دو تہائی سینٹی فیوج گھٹائے جائیں گے۔ ایران سے سینٹی فیوج محض 3.67 فیصد تک یورینیم کا انرچ کریں گے، جو بجلی پیداوار کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ موجودہ صلاحیت سے ایران ایک نیوکلیئر بم بنانے لائق یورینیم ۔تین سے چار مہینے میں تیار کر سکتا تھا، لیکن معاہدے کے بعد یہ وقت ایک سال تک کھنچے گا۔اسے10 سال تک برقرار رکھنا ہوگا۔ استعمال نہ ہونے والے سینٹی فیوجوں کو بین الاقوامی نیوکلیائی انرجی ایجنسی(آئی اے ای اے)کی نگرانی میں رکھا جائے گا۔ ایران کے سبھی نیوکلیئر سینٹرز کا یہ ایجنسی باقاعدہ طور سے معائنہ کرے گی۔ سبھی ری ایکٹر اگلے25 برسوں تک آئی اے ای اے کی نگرانی میں رہیں گے۔ بدلے میں امریکہ اور یوروپی فیڈریشن کے ذریعے نافذ اقتصادی اور تیل پابندیوں کو آہستہ آہستہ مرحلہ وار طریقے سے ختم کیا جائے گا لیکن اگر ایران شرائط کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس پر دوبارہ پابندی عائد کی جاسکے گی۔ پابندی ہٹنے سے بین الاقوامی سطح پر ایران اپنے تیل کو بڑے پیمانے پر فروخت کر سکے گا۔ اگر چہ شرائط کے مطابق ایران سبھی نیوکلیائی تقاضوں کو پورا کرتا ہے اور آئی اے ای اے اس کی تصدیق کرتا ہے تو اس پر نافذ نیوکلیائی سے متعلق پابندیاں ختم ہوجائیں گی۔ اس کے خلاف ماضی گذشتہ میں نافذ اقوام متحدہ سکیورٹی کونسل تجاویز کو ختم کردیا جائے گا۔ امریکہ نے پچھلی ایک دہائی سے ایران کے نیوکلیائی پروگراموں کے خلاف حملے تک کی دھمکی دے ڈالی تھی۔ امریکہ کے سابق صدر جارج بش کے عہد میں حالات بہت کشیدہ ہوگئے تھے۔ بش نے تو ایران پر حملے تک کی تیاری کر لی تھی۔ براک اوبامہ کے عہد میں حالات میں بہتری آئی اور بات چیت کے حالات بنے۔ ایران بھی رضامندی کیلئے کچھ نرم پڑا ہے اور مغربی ممالک بھی رضامندی کے پوائنٹ پر آنے کیلئے اپنے موقف میں تبدیلی کرنے پر کچھ حد تک راضی ہوئے۔ امریکی صدر براک اوبامہ نے کہا کہ یہ سمجھوتہ ٹھیک سے لاگو ہوا تو وہ سارے راستے کٹ جائیں گے ، جن سے ایران نیوکلیائی ہتھیار بنانے کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ بہرحال ابھی بھی سمجھوتے کی کامیابی کو لیکر خدشات ہیں تو اس کی وجہ امریکہ اور ایران میں اپوزیشن کا اسے نامنظور کر دینا ہے۔ ری پبلکن پارٹی نے کہا کہ اسے لاگو کرنے کیلئے آئینی اقدامات کو وہ امریکی کانگریس (پارلیمنٹ) میں پاس نہیں ہونے دیں گے۔ ادھر ایران کے اپوزیشن لیڈروں نے سرکار پر دیش کی نیوکلیائی سرداری کوسرنڈر کرنے کا الزام لگایا ہے۔ دونوں فریقین کے سینئرلیڈروں کو اس کے لئے عوامی حمایت حاصل کرنی ہوگی۔ ہم امید کرتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں آخرکار ضمیر کی جیت ہوگی اور پرامن حل ایران اور مغربی ملکوں کے مفاد میں تو ہے ہی باقی دنیا بھی راحت کی سانس لے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟