یوم تاسیس پر بھاجپا بانیان کو ہی بھول گئی

ساؤتھ پنتھی آئیڈیالوجی کی حامی رہی بھارتیہ جن سنگ کی بنیاد پر6 اپریل 1980 کوقائم بھارتیہ جنتا پارٹی (بھاجپا) آج دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی بن چکی ہے۔ حال ہی میں قریب 10 کروڑ ممبر بنا کر پارٹی نے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ گذشتہ35 برسوں میں پارٹی نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں اور کبھی لوک سبھا میں محض دو سیٹیں پانے والی پارٹی آج مرکز کے اقتدار میں ہونے کے ساتھ ساتھ 13 ریاستوں میں حکومت میں سانجھے دار ہے لیکن ہمیں دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ حالیہ پارٹی لیڈرشپ آج ان بزرگوں کو نظرانداز کررہی ہے جن کی بدولت پارٹی آج یہاں تک پہنچی ہے۔ پیرکے روز پارٹی نے اپنا 35 واں یوم تاسیس منایا۔ اس دوران پارٹی ہیڈ کوارٹر پر منعقدہ تقریب میں سینئر لیڈروں سمیت کئی ورکر بھی موجود تھے لیکن پارٹی کے بانیوں میں سے ایک لال کرشن اڈوانی نے پروگرام میں اس لئے شرکت نہیں کی کیونکہ انہیں بلایا ہی نہیں گیا تھا۔ بنگلورو میں ہوئی قومی ایگزیکٹو کی میٹنگ کے بعد سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی اور ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کو ایک بار پھر بے آبرو ہونا پڑا ہے۔انہیں پارٹی کے 35 ویں یوم تاسیس تقریب کے لئے دعوت نامہ ہی نہیں بھیجا گیا۔ دعوت نہ ملنے کے سبب پارٹی کے بانی رہے اڈوانی 35 سال کی تاریخ میں پہلی بار یوم تاسیس پروگرام سے دور رہے۔ وہ بھی تب جب پارٹی اس تقریب میں دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی بننے اور پہلی بار اپنے دم پر مرکز میں برسراقتدار آنے کے لائق اکثریت حاصل کر بڑا جشن منا رہی تھی۔ خاص بات یہ ہے کہ اس دوران تقریب میں پارٹی کے دوسرے سب سے بڑے لیڈر ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی بھی نہیں دکھائی دئے۔ شری لال کرشن اڈوانی کا پارٹی لیڈر شپ سے ناراض ہونا واجب ہے۔ اگر پارٹی آج یہاں تک پہنچی ہے تو اس میں اٹل جی ، اڈوانی جی اور ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی کا بہت بڑا اشتراک ہے۔ شری نریندر مودی اور امت شاہ نے تو پچھلے ڈیڑھ دو سال سے ہی پارٹی کی قیادت سنبھالی ہے لیکن 30 سال پہلے تو اڈوانی ، اٹل بہاری واجپئی اور جوشی نے ہی پارٹی کو سنبھالا اور بنایا۔ آج انہیں قومی لیڈر شپ نے ایسے باہر کیا ہے جیسے دودھ میں سے مکھی کو کیا جاتا ہے۔ آج پارٹی کو تین لیڈر چلا رہے ہیں نہ تو پارٹی میں اجتماعی لیڈر شپ ہے اور نہ ہی آج ورکر لیڈر شپ سے مل سکتے ہیں۔ ہر فیصلہ تین لیڈر مل کر کرتے ہیں اور اپنے ڈھنگ سے پارٹی و سرکار چلا رہے ہیں۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ اڈوانی ان دنوں پارٹی کی سینئر لیڈر شپ سے خاصے ناراض ہیں کیونکہ لیڈر شپ کی طرف سے ان کا کردار ریٹائرڈ لیڈر کی طرح کردیاگیا ہے۔ بنگلورو میں یہ پارٹی کی تاریخ میں دوسری بار ہوا ہے کہ لال کرشن اڈوانی اسٹیج پر تو موجود تھے لیکن ان کا نام تقریر کرنے والے لیڈروں کی فہرست میں نہیں تھا۔ اس کا احساس ہونے کے بعد اڈوانی اسٹیج پربے دلی سے موجود رہے۔کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ انہیں ورکنگ کمیٹی میں بولنے کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امت شاہ نے اپیل بھی کی تھی لیکن تقریر دینے والے لیڈروں کی فہرست میں نام نہ ہونے سے وہ اس کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ بھاجپا کی موجودہ لیڈر شپ کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ سب کو ساتھ لیکر چلے۔یہ سیاسی پارٹی ہے کوئی پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی نہیں ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟