طلاق شدہ مسلم خاتون گزارہ بھتے کی حقدار:سپریم کورٹ کا اہم فیصلہ

طلاق شدہ مسلم خواتین کو لیکر سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے پھر سے صاف کردیا ہے کہ آئی پی سی کے دفعہ125 کو لیکر کسی طرح کا امتیاز نہیں ہوسکتا اور یہ طلاق شدہ مسلم خواتین پر بھی نافذ ہوتا ہے۔ جسٹس دیپک مشرا ،جسٹس پی ۔ سی۔ پنتھ کی ڈویژن بنچ نے کہا ہے کہ آئی پی سی کے دفعہ کے تحت مسلم خواتین اپنے سابقہ شوہروں سے گزارہ بھتہ پا نے کی حقدار ہیں ۔ جو بیویوں اور بچوں اور والدین کو یہی راحت دیتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر کسی خاتون کا شوہر تندرست ہے اور وہ اپنی دیکھ بھال کرنے میں اہل ہے تو اسے اپنی بیاہتا بیوی کی بھی دیکھ بھال کرنی ہوگی۔ یہ قانونی طور پر جائز ہے۔ ڈویژن بنچ نے اپنے حکم میں کہا کہ قانون کی دفعہ کے تحت طلاق شدہ مسلم خواتین کو اپنے شوہرسے گزارہ بھتہ لینے سے روکا نہیں جاسکتا۔ حالانکہ اگر ایسی خواتین پھر سے شادی کر لیتی ہیں تو وہ اس حق سے محروم ہوسکتی ہیں۔
عدالت نے یہ بھی صاف کیا دفعہ125 کو صرف عدت میعاد تک کیلئے محدود نہیں کیا جاسکتا۔ ڈویژن بنچ نے آئینی بنچ کے سابقہ فیصلے کا بھی حوالہ دیا۔ سپریم کورٹ نے کئی فیصلوں کا ذکر کیا جن میں یہ طے ہوا کہ ایک مجسٹریٹ طلاق شدہ مسلم خاتون کو معاوضے کی توثیق کر سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص ٹھیک ٹھاک وسائل ہوتے ہوئے بھی بیوی ،بچوں یا والدین کی دیکھ بھال سے انکار کرتا ہے یا نظر انداز کرتا ہے تو آئی پی سی کی دفعہ 125 بیوی ،بچوں اور والدین کو گزارے بھتے کا حکم دینے سے تعلق رکھتی ہے، ایک طلاق شدہ مسلم خاتون پر دفعہ125 نافذ ہونے کے اشو سے نمٹتے ہوئے بنچ نے نچلی عدالت کے اس حکم کو برقرار رکھا جس میں فوج کے نائک کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے شخص کو اپنی طلاق شدہ بیوی کو 4 ہزار روپے گزارا بھتہ دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ ڈویژن بنچ کو یہ جان کر دکھ ہوا کہ گزارہ بھتے کے لئے خاتون نے 1998ء میں درخواست دی تھی جس پر فیملی کورٹ فروری 2012ء تک کوئی فیصلہ نہیں کرسکی تھی۔ بنچ نے کہا یہ بھی حیران کر دینے والی بات ہے کہ انترم معاوضے کیلئے بھی کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ بڑی عدالت نے کہا کہ گزارہ بھتے کے لئے داخل درخواست کو جلد سے جلد نپٹانا چاہئے۔ ازدواجی تنازعوں کو دیکھنے کے لئے قائم کردہ فیملی کورٹ اس کے تئیں پوری طرح سنجیدہ ہوجائے۔سپریم کورٹ کے ذریعے اس معاملے کو صاف کردئے جانے سے مسلم خواتین کو فائدہ ہوگا۔ غور طلب ہے کہ شاہ بانو معا ملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس وقت کی راجیو گاندھی سرکار نے اس قانون کی دفعہ میں ترمیم کر طلاق شدہ مسلم خواتین کے اختیارات میں کٹوتی کردی تھی۔ اس وقت کی حکومت نے اس معاملے میں پارلیمنٹ میں ایک قانون بھی پاس کروا کر طلاق شدہ مسلم خواتین کو گزارہ بھتہ دینے سے متعلق اختیارات کو محدود کردیا تھا لیکن عدالت نے صاف کیا ہے کہ آئی پی سی کی دفعہ 125 کے تحت ٹھیک ٹھاک وسائل والا شخص اپنی طلاق شدہ بیوی کی دیکھ بھال سے انکار نہیں کرسکتا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!