بچوں کے سامنے والد کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا

سینٹرل دہلی کے علاقہ ترکمان گیٹ پر ایتوار کی رات بائیک ٹچ ہونے پر کار سواروں نے ایک آدمی کو اس کے بچوں کے سامنے پیٹ پیٹ کر مارڈالا۔متوفی کی شناخت شاہنواز حسین کے طور پر کی گئی ہے۔ ذرائع کی مانیں تو واردات کی جگہ کے پاس کھڑے پولیس والے محض تماش بین بنے رہے۔ اس بات سے ناراض لوگو ں نے جم کر ہنگامہ کیا اور پولیس کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرہ کرنے والوں میں کافی تعداد میں خواتین بھی تھیں۔ بھیڑ نے ملزمان کے گھر کے آس پاس کھڑی گاڑیوں کے شیشے بھی توڑ دئے اور 6 بائیکوں کو آگ لگادی۔ دیررات پولیس نے قتل کا معاملہ درج کر ایک ملزم وسیم کو گرفتار کرلیا۔سبھی ملزمان کی گرفتاری کی مانگ کو لیکر متوفی کے خاندان والوں نے پیر کی صبح ترکمان گیٹ پر جام لگا دیا جس سے سینٹرل دہلی میں ٹریفک ٹھپ ہوکر رہ گیا۔ لوگوں میں اس بات کا غصہ تھا کہ مٹیا محل کے ممبر اسمبلی و دہلی حکومت کے فوڈ و سپلائی وزیر عاصم احمدخان ایک پوسٹل میں ملزمان کے ساتھ نظر آرہے ہیں اور اسی وجہ سے پولیس ملزمان کو گرفتار نہیں کررہی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق جن لوگوں نے شاہنواز حسین کا قتل کیا ہے وہ علاقے کے دبنگ مانے جاتے ہیں۔ متاثرہ خاندان کے مطابق امین پہلوان کے18 بھائی ہیں اور ان کا کئی طرح کا کام ہے لیکن زیادہ تر بھائی بلڈر ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق علاقے میں دبدبہ بنائے رکھنے کیلئے اکثر کسی نہ کسی کی پٹائی کرتے رہتے ہیں۔ شاہنواز کی پٹائی کے دوران اس کے دونوں بیٹے موقعہ پر موجود تھے۔بڑا بیٹا فحاد امین پہلوان کے سامنے والد کو نہ مارنے کی التجا کررہاتھا لیکن ملزمان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ پھر فحاد ترکمان گیٹ پولیس چوکی کی طرف بھاگا وہیں دوسرے بیٹے نے اپنے دادا دادی کے گھر جاکر واردات کی اطلاع دی۔ خاندان والوں نے موقعہ واردات سے شاہنواز کو ہسپتال میں بھرتی کرایا لیکن شاہنواز بچ نہیں سکا۔ دہلی میں روڈ ریج کی بڑھتی تعداد باعث تشویش بنتی جارہی ہے۔ دہلی پولیس کنٹرول روم میں روزانہ روڈ ریج کے 10-12 واقعات کے بارے میں ٹیلیفون کال درج ہوتی ہیں۔ دونوں گاڑیوں کے بیچ معمولی ٹکر سے شروع ہونے والے روڈ ریج کے واقعات کئی مرتبہ اتنے بڑے ہوجاتے ہیں کہ کبھی کبھی کسی شخص کو اپنی جان تک گنوانی پڑ جاتی ہے۔ انٹرنیشنل جنرل آف سائنٹفک اینڈ ریسرچ پبلی کیشن کے ایک تحقیقی دستاویز کے مطابق دہلی میں روڈ ریج کے زیادہ تر واقعات مصروف ترین اوقات کے دوران ہوتے ہیں۔ 
روڈ ریج کے 96 فیصدی واقعات کار ڈرائیوروں سے دوسرے گاڑی ڈرائیوروں کے درمیان جھگڑے اور مار پیٹ کی بات سامنے آئی ہے۔ دستاویز کے مطابق روڈ ریج کے 42 واقعات کارسے ٹکرانے ، 33 فیصدی کار سے دو پہیہ گاڑیوں (اسکوٹروں) کی ٹکر کے چلتے ہوئے ہیں۔ وہیں کار۔بس ، آٹو و کار، ٹرک۔اسکوٹر اور ٹریکٹر ۔ کار کے درمیان روڈ ریج کے قریب4-5 واقعات ہوئے ہیں۔بھاری ٹریفک بھی روڈ ریج کی اہم وجہ ہے۔ سائیکلوجی کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ لوگ سب کچھ جلد پانا چاہتے ہیں ان میں صبر کی کمی ہے اوریہی کمی آئے دن دہلی و دیگر شہروں میں روڈ ریج کی وجہ بنی ہوئی ہے۔ لوگ تکنیک کے اس دور میں مکینائز ہوگئے ہیں اس وجہ سے حساسیت زیرو ہوگئی ہے۔ انہیں سڑک پر یہ دلچسپی نہیں ہے کہ وہ اسے جانتے ہیں یا نہیں بس غصہ نکالنا ہے اور اس دوران لوگ خود پر سے کنٹرول کھو دیتے ہیں۔ اس وجہ سے روڈ ریج کے واقعات ذرا ذرا سی کہا سنی سے گالی گلوچ اور اس کے بعد جان لیوا ثابت ہورہے ہیں۔ ترکمان گیٹ کے معاملے میں اگر وہاں کی چوکی میں تعینات پولیس ملازمین نے دیکھتے ہوئے بھی نظر انداز کیا ہے تو ان پر کارروائی ہونی چاہئے۔ بچے گڑ گڑاتے رہے اور وہ تماشہ دیکھتے رہے اور شاہنواز کو بچانے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ روڈ ریج کے بڑھتے معاملے تشویش کا موضوع بنتے جارہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟