لوک سبھا چناؤ دنگل: این ڈی اے بنام یوپی اے محاذ!
لوک سبھا چناؤ کے اعلان کے ساتھ ہی سیاسی پارٹیاں چناؤ سے پہلے اتحاد کو قطعی شکل دینے میں لگ گئی ہیں۔ فی الحال جو سیاسی حالات دکھائی دے رہے ہیں اس میں تین یا چار محاذ بننے کا امکان نظر آرہا ہے۔پہلا محاذ کانگریس کی رہنمائی والا یوپی اے ہے ، دوسرا بھاجپا کی رہنمائی والا این ڈی اے ہے اور تیسرا ممکنہ تیسرا مورچہ اور چوتھا ہے عام آدمی پارٹی۔کانگریس کی رہنمائی والے یوپی اے کی اگر بات کریں تو یہ محاذ پچھلے 10 سال سے اقتدار میں ہے لیکن مسلسل کرپشن اور گھوٹالوں اور مہنگائی ، بے روزگاری ، بگڑتا قانون و نظم کے الزامات اور کمزور پڑتی کانگریس کی اس مرتبہ پوزیشن بہت ڈانواڈول ہے۔ ڈوبتے جہاز کی حالت میں آیا یوپی اے محاذ سے کئی اتحادی پارٹیاں بھاگ چکی ہیں اور کئی پارٹیاں بھاگنے کی تیاری میں لگی ہیں۔ ان میں ترنمول کانگریس اور ڈی ایم کے خاص ہیں۔ بہار میں لالو نے کانگریس کو اپنی شرطوں پر تال میل کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ آندھرا پردیش میں ٹی آر ایس اور اترپردیش میں راشٹریہ لوک دل کے ساتھ اتحاد کی تیاری چل رہی ہے۔ کانگریس پارٹی اپنے امیدواروں کے نام کا اعلان کرنے اور چناؤ کمپین میں بھی بھاجپا سے پیچھے چل رہی ہے۔ کانگریس صدر سونیا گاندھی، نائب صدر راہل گاندھی کی چناؤ ریلی کا پروگرام ابھی تک طے نہیں ہوپایا۔ وہیں چناؤ کمپین کمیٹی کے ممبروں نے سونیا گاندھی اور راہل گاندھی کے سامنے بھی سوال رکھا ہے کہ امیدواروں کے اعلان میں تاخیر ہوگئی ہے جبکہ بھاجپا کی پہلی فہرست آ چکی ہے۔ کانگریس کی طاقت کی بات کریں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے مسلسل 10 سال تک پائیدار سرکار دی ہے۔ کئی عوامی مفاد کی اسکیموں کو نافذ کیا ہے۔ کانگریس کو ان ریاستوں سے زیادہ امید ہے۔ جیسے جموں و کشمیر، ہریانہ، اتراکھنڈ، ہماچل، مہاراشٹر، جھارکھنڈ اور نارتھ ایسٹ کی ریاستیں کرناٹک، تلنگانہ وغیرہ شامل ہیں۔ دوسرا محاذ ہے بھاجپا کی قیادت والا این ڈی اے۔ اس نے چناؤ اعلان سے کچھ دن پہلے ہی رام ولاس پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی سے تال میل کرکے یہ تو ثابت کردیا کہ وہ اب نہ تو فرقہ پرست ہے اور نہ ہی اس کو لے کر اچھوت۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لوک سبھا چناؤ نریندر مودی بنام باقی ہے۔سبھی بھاجپا اور نریندر مودی کی بڑھتی مقبولیت اور ان کی ریلیوں میں آرہی بھیڑ سے پریشان ہیں۔ نریندر مودی 250 سے زیادہ ریلیوں سے خطاب کرچکے ہیں۔ بھاجپا کے سینئر لیڈر راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر ارون جیٹلی کو چناؤ لڑانے کی ذمہ داری سونپنے جارہی ہے۔ جیٹلی کے علاوہ وینکیانائیڈو بھی لوک سبھا چناؤ نہیں لڑیں گے بلکہ چناوی مہا سمر میں بھاجپا ان کی نگرانی میں چناؤ میدان میں اترے گی۔ ساؤتھ کی ریاستوں میں چناؤ کو چلانے کی ذمہ داری وینکیانائیڈو دیکھیں گے۔ ڈی ایم کے اور ایم کروناندھی نے حال ہی میں نریندر مودی کی تعریف کرکے یہ اشارہ دیا کے وہ ان کے ساتھ اتحاد میں شامل ہوسکے ہیں۔ انا ڈی ایم کے کی لیڈر جے للتا نے مارکسوادی پارٹی سے اتحاد توڑنے کا اعلان کرکے یہ اشارہ دیا ہے کہ ان کے متبادل کھلے ہیں۔ تاملناڈو کی ایم ڈی ایم کے اور پی ایم کے پہلے ہی اتحاد میں شامل ہوچکی ہے۔ پارٹی کے حکمت عملی سازوں کا خیال ہے کہ بھاجپا سرکار بنانے کی پوزیشن میں پہنچتی ہے تو یوپی اے کی کئی پارٹیاں بھی ان کے ساتھ آسکتی ہیں۔ مہاراشٹر میں شیو سینا، پنجاب میں اکالی دل، ہریانہ میں جن ہت کانگریس پہلے ہی این ڈی اے کی حصہ ہیں۔ ہریانہ کی بات کریں تو ہریانہ کانگریس کو بدھوار کو اس وقت زبردست جھٹکا لگا جب سابق مرکزی وزیر ونود شرما نے پارٹی سے اپنا پرانا رشتہ توڑ کر کلدیپ بشنوئی والی ہریانہ جن ہت کانگریس میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ونود شرما اور بھاجپا ہجکا محاذ کے درمیان ہوئے سمجھوتے کے تحت ونود شرما اب بھاجپا میں سیدھا نہ آکر ہجکا سے چناؤ لڑیں گے۔ ہجکا کا این ڈی اے سے گٹھ بندھن ہے اس سے پہلے کانگریس سے راؤ اندر جیت سنگھ آئے تھے اس طرح سے ہریانہ میں این ڈی اے کو مضبوطی ملے گی۔ این ڈی اے کی سب سے بڑی طاقت بلا شبہ نریندر مودی ہیں اور یوپی اے سے لوگوں کی ناراضگی کا فائدہ این ڈی اے کو ملے گا۔ مودی کی نوجوانوں میں بڑھتی مقبولیت اور بھاجپا سے جڑنا اچھا اشارہ ہے۔ تازہ سروے پر یقین کریں تو ٹی وی نیوز چینل سی این این، آئی بی این کے مطابق یوپی میں بھاجپا کو 80 میں سے41 سے49 سیٹیں مل سکتی ہیں جبکہ بہار میں بھاجپا ایل جے پی اتحاد کو کل40 سیٹوں میں سے22 سے23 سیٹیں مل سکتی ہیں۔ این ڈی اے کی اگر کمزوریوں کی بات کریں تو دیش کی کئی ریاستوں میں اس کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے حالانکہ2002ء میں گجرات دنگوں میں مودی کو کلین چٹ مل چکی ہے لیکن مسلمانوں کا ووٹ ابھی بھی ان کے لئے چنوتی بنا ہوا ہے۔ جہاں تک این ڈی اے اور بھاجپا کو امید ہے کہ وہ پنجاب، یوپی، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، بہار، اتراکھنڈ، دہلی، گجرات ہیں جہاں بھاجپا کو اچھی کامیابی ملے گی۔ میں ابھی بھی مانتا ہوں کہ این ڈی اے مقبولیت میں سب سے آگے ہے لیکن کانگریس اور یوپی اے کو کمتر سمجھنا صحیح نہیں ہوگا۔ کل چوتھے مورچے اور ’’آپ‘‘پارٹی کی بات کروں گا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں