سپریم کورٹ کے فتوے پر نپا تلا تبصرہ!

سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلے میں کہا کہ مسلم عالم دین کے ذریعے جاری فتویٰ لوگوں پر تھونپا نہیں جاسکتا۔ یہ بات سپریم کورٹ نے مسلم فرقے کے ذریعے چلائی جارہی شرعی عدالتوں میں مداخلت کرنے کے تئیں اپنی بے چینی ظاہر کرتے ہوئے حال ہی میں کہا کہ سرکار کو ایسے شخص کو تحفظ دینا چاہئے جنہیں اس طرح کی ہدایتوں کی تعمیل نہ ہونے کے سبب پریشان کیا جاتا ہے۔عدالت نے شرعی عدالتوں کو ختم کرنے، فتوؤں پر روک لگانے کی مانگ والی عرضی پر فیصلہ محفوظ رکھتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔ جسٹس سی۔ پرساد اور جسٹس پی ۔سی گھوش کی بنچ نے کہا عوام کی بھلائی کے لئے کچھ فتوے جاری کئے جاسکتے ہیں۔ کچھ مذہبی اور سیاسی اسباب ہوسکتے ہیں اور عدالت اس پر نہیں جانا چاہتی۔ غور طلب ہے عالمی لوین یدان نے 2005ء میں سپریم کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی عرضی دائر کی تھی جس میں شرعی عدالتوں اور فتوؤں پر روک لگانے کی مانگ کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے تبصر ے سے فتوے کے بارے میں غلط فہمیاں تو دور ہوتی ہیں مگر ان کے قانونی جواز کو لیکر بھی حالات واضح ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ اگر کوئی فتویٰ جاری کردیا گیا تو اس پر پابند ہونا ہوگا جب بھی کوئی فتویٰ جاری کیا جاتا ہے ایک خاص طرح کے ڈر کا احساس لوگوں میں پیدا ہوجاتا ہے۔ فتوے کو قانون سے اوپر یا اس کے یکساں تک مانا جارہا ہے۔ اس کی وجہ سے تنقید بھی کی جاتی رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس طرح کی دقیانوسیت کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ فتوے کے حساس ترین تنازعے پر سپریم کورٹ کا تبصرہ سیکولر بھارت کو زیادہ مضبوط بنائے گا۔ ایسا ہمارا خیال ہے۔ عدالت کا کہنا ہے اگر شہریوں کے بنیادی حقوق پر کوئی فتویٰ مسلط ہوتا ہے تو عدلیہ مداخلت کرے۔ حالانکہ بھارت سرکار کے بڑے وکیل نے عدالت کو مطلع کیا تھا کہ فتویٰ ماننے کیلئے پابند نہیں ہے کیونکہ یہ محض ایک شرعی رائے ہے لیکن عرضی گزار کا کہنا تھا کہ دارالاقضا، دارالافتاہ کی شرعیت پر مبنی قانونی سسٹم یا مذہبی بنیاد پر ملککے عدلیہ نظام کے یکساں چل رہی ہے۔ عرضی میں واضح ہے کہ نادان مسلمانوں کو مذہب اور قرآن کے نام پر کچھ خودغرض لوگ فتویٰ کے ذریعے جھکاتے ہیں لیکن فتویٰ پر منتھن آج کے ماحول میں ضروری ہوجاتا ہے۔ ڈھائی لفظ والا الفاظ 17 ویں صدی سے شروع ہوا تھا۔ عربی میں فتوے کا مطلب ہے رائے یا تجویز۔ کئی لوگ اسے ضروری سمجھتے ہیں ،کچھ اسے صرف تہذیب اسلامی قاعدے قانون کے بارے میں ناواقفیت کے طور پر اس پر عمل کرانے والی دیوبند کے اسلامی ادارے دارالعلوم دیوبند کے عالم دین عبدالرؤف عثمانی کا کہنا ہے کہ فتویٰ پر عمل کرنا لازمی نہیں ہے کیونکہ یہ شرعی رائے ہے اس پر عمل کرنا نہ کرنا اس کے ضمیرپر منحصر کرے گا۔ سپریم کورٹ کی بھی یہی رائے ہے۔یہ لوگوں کی مذہبی عقیدت کا معاملہ ہے اس میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی جاسکتی جب تک ان فتوؤں سے لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو اس فتویٰ سسٹم پر متوازن رائے دنیا کے سب سے بڑے دانشور ڈاکٹر علی گویا نے دی ہے۔ قاہرہ، مصر کے دارالافتاہ اور دارالامصرریاح کے چیئرمین نے بتایا کہ مذہبی کتاب اور انسانی تجربوں کے درمیان تال میل بٹھا کر ہی فتوی جاری ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر گویا کا مرکزروزانہ ساڑھے تین ہزار فتوے جاری کرتا ہے۔ کیا عرب علمائے دین کی رائے پر ہندوستانی علمائے دین متفق ہوں گے؟
(انل نریندر) 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟