راہل کے ڈریم بلوں پر صدر کا عدم اتفاق!

ہم کانگریس پارٹی کی ہڑبڑاہٹ کو سمجھ سکتے ہیں۔ وہ لوک سبھا چناؤ سے پہلے اپنی کمان سے سارے تیر چلانا چاہتی ہے کیونکہ انہیں جو رپورٹ مل رہی ہے وہ حوصلہ افزا نہیں لگتی۔ لوک سبھا چناؤ میں کانگریس کو مایوسی ملنے والی ہے۔ جاتے جاتے اس یوپی اے سرکار نے دونوں ہاتھوں سے ریوڑیاں بانٹنا شروع کردی ہیں۔ سوغات کی جھڑی لگادی ہے۔جو کچھ بھی وہ دے سکتی تھی اس نے دے دیا۔ ممکن ہے کسی بھی وقت چناوی تاریخوں کا اعلان ہونے والا ہے اور اسی کے ساتھ چناؤ ضابطے لگ جائیں گے۔ یوپی اے سرکار نے مرکزی ملازمین کا مہنگائی بھتہ موجودہ90 فیصد سے بڑھا کر100 فیصد کردیا ہے۔ امپلائز پروویڈنٹ فنڈ آرگنائزیشن کی ملازمین پنشن اسکیم۔95 کے تحت کم از کم پنشن رقم1000 روپے کردی ہے۔ لوک سبھا چناؤ لڑنے والے امیدواروں کے چناوی خرچ کی حد بھی بڑھا کر70 لاکھ روپے کردی ہے لیکن پارٹی نائب صدر راہل گاندھی کے ڈریم بلوں میں رکاوٹ آگئی ہے۔ ان کے پسندیدہ 7 بلوں کو آرڈیننس کے ذریعے لاگو کرنے کا سارامنصوبہ صدر محترم پرنب دا نے ناکام کردیا ہے۔ کیبنٹ نے ایتوار کو ان بلوں کو آرڈیننس کے ذریعے قانون بنانے کے پلان کو ڈراپ کردیا ہے۔ یہ اس لئے ڈراپ یا منسوخ کرنا پڑا کیونکہ صدر پرنب مکھرجی نے ان پر دستخط کرنے سے صاف منع کردیا تھا۔ ذرائع کے مطابق صر پرنب مکھرجی نے وزیر قانون کپل سبل اور وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے کے ساتھ ہوئی ملاقات کے دوران اپنا موقف صاف کردیا۔ انہوں نے سرکار کے عہد کے آخری مرحلے میں اتنے اہم بل کو آرڈیننس کے ذریعے لانے کو لیکر اپنے خدشات ظاہر کرتے ہوئے ان کے مسودوں میں خامیوں کی طرف بھی توجہ دلائی۔ ویسے بھی پہلے ہوئی کیبنٹ کی میٹنگ میں بھی شرد پوار اور کپل سبل جیسے وزیر بھی موجودہ صورت میں آرڈیننس پر اپنی تشویش اور اعتراض جتا چکے تھے۔ صدر نے آئین کی دفعہ123 کے تحت آرڈیننس لانے کی فوری ضرورت پر سوال اٹھائے۔ صدر کا نظریہ تھا کہ ایسے قانون پارلیمنٹ میں بحث کے بعد ہی بنائے جانے چاہئیں۔ ویسے ان آرڈیننس کی ضرورت پر کئی بار ماہر قانون نے پہلے ہی سوال اٹھائے تھے۔ وہیں اپوزیشن پارٹی پہلے سے ہی آرڈیننس لانے کی مخالفت کررہی تھی۔ دراصل یوپی اے سرکار یہ نہیں بتا پارہی ہے کہ کانگریس اور موجودہ منموہن سرکار دیش کو یہ دکھانا چاہتی تھی کہ وہ کرپشن سے لڑنے کو لیکر پابند ہیں بلکہ یہ بھی ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ اس لڑائی کی رہنمائی اس کے وائس پریزینڈنٹ راہل گاندھی ہی کررہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے جوڈیشیل جوابدہی اور وقت پر خدمات فراہم کرنے کے آئینی بلوں کے ساتھ پانچ بلوں کو راہل گاندھی کی ترجیحاتی فہرست میں چوٹی پر بتایا جارہا ہے۔ بلا شبہ اگر ان میں پانچ بل پاس ہوجاتے تو کرپشن سے لڑنے میں آسانی ہوجاتی اور اس برائی کے خلاف ایک ماحول بھی تیار ہوتا۔ یہ سبھی بل مفاد عامہ کے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہاں پر یوپی اے سرکار اور کانگریس پارٹی سے ایک بہت بھاری بھول ہوگئی۔ انہیں لوک پال بل کے ساتھ ہی پارلیمنٹ سے پاس کرالینا چاہئے تھے کیونکہ یہ سب اسی سے متعلق ہیں۔ تب حکومت اور اپوزشین میں لوک پال بل کو لیکر اتفاق رائے بھی تھا۔ ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ یوپی اے سرکار جس طرح سے ریوڑیاں بانٹ رہی ہے اس سے دراصل کروڑوں روپے کا فاضل بوجھ سرکاری خزانے پرپڑے گا جس سے اگلی سرکار کو نمٹنے میں کافی دقت آئے گی۔ شاید کانگریس نے سوچا کہ ہم تو ڈوب رہے ہیں تمہیں بھی لے ڈوبیں گے صنم۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!