اور اب شیلس رائس کا نیا گھوٹالہ!

اپنے دوسرے عہد کے دوران ایک کے بعد ایک گھوٹالوں کے سامنے آنے سے ہلکان ہورہی یوپی اے سرکار کی مشکلیں جاتے جاتے کم نہیں ہورہی ہیں۔ اپنے دیش میں ڈیفنس سازو سامان خرید میں کمیشن لینے کے الزام کا سب سے بڑا معاملہ بوفورس کا رہا۔ اس وقت راجیوگاندھی کی قیادت والی کانگریس سرکار کو اس کی قیمت چکانی پڑی۔اس تنازعے سے سبق لیتے ہوئے یہ قاعدہ بنایا گیا تھا کہ ہتھیاروں اور دیگر ڈیفنس سودوں میں بچولیوں کو کسی بھی سطح پر شامل نہیں کیا جائے گا۔ کوئی کمپنی بھارت میں دفاعی سازو سامان کی خرید میں کسی کو کمیشن ادا کرے تو یہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اس پابندی کے باوجود کمیشن دینے کا سلسلہ بنا رہا۔ اگستا ویسٹ لینڈ سے وی وی آئی پی ہیلی کاپٹروں کی خرید میں اس طرح کی حقیقت سامنے آنے کے بعد حکومت نے سخت کارروائی کرتے ہوئے جنوری میں وہ سودہ منسوخ کردیا۔ اب اسی طرح کا ایک اور معاملہ سامنے آیا ہے۔ اے ایم ایل یعنی ہندوستان اروناٹکس لمیٹڈ نے برطانوی کمپنی شیلس رائس سے جہازوں کے انجن کی سپلائی کے لئے 10 ہزار کروڑ روپے کا سودا کیا تھا لیکن رشوت کا معاملہ سامنے آنے پر وزارت دفاع نے اس کمپنی سے سبھی موجودہ اور مستقبل میں ڈیفنس سودوں پر روک لگانے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی وزیر دفاع اے ۔کے انٹونی نے معاملے کی سی بی آئی جانچ کے احکامات دئے ہیں۔ اب سی بی آئی کی جانچ کے بعد ہی صاف ہوسکے گا کہ اس معاملے کی پوری سچائی کیا ہے کن ہندوستانی افسروں ۔ لیڈروں کو رشوت کی رقم ملی ہے ۔ لیکن اس معاملے کا سامنے آنا ہماری پہلے سے پچھڑی ہوئی ڈیفنس تیاریوں کے لئے زبردست جھٹکا ہے۔ غور طلب ہے کہ گذشتہ برسوں میں الزام لگتے رہے ہیں کہ ضروری جنگی سامانوں کی خرید کا کام اس لئے پچھڑتا جارہا ہے کیونکہ کسی گھپلے گھوٹالے کی تہمت سے بچنے کیلئے سرکار و وزارت دفاع بیحد چوکسی اپنائے ہوئے ہے ۔ اس کے باوجود اگر ڈیفنس سودوں سے متعلق گھوٹالے اجاگر ہورہے ہیں تو سوال اٹھنا جائز ہے کہ ایسی چوکسی کا فائدہ کیا ہے؟ برطانوی کمپنی شیلس رائس نے ہندوستان اروناٹکس لمیٹڈ کے ساتھ 10 ہزار کروڑ روپے کا سودا کرنے کے لئے مبینہ طور پر 600 کروڑ روپے کی کمیشن دی۔ وزارت دفاع نے سی بی آئی سے اس معاملے میں سچائی سامنے لانے کو کہا ہے۔ پچھلے پانچ سال میں ایچ اے ایل کو قریب 5 ہزار کروڑ روپے کی ادائیگی کر چکی برٹش کمپنی نے قبول کیا ہے کہ اس نے سرکاری بالادستی والی اے ایم ایل کے ساتھ سودا کرنے کے لئے اشوک پاٹنی نامی شخص اور اس کی سنگا پور کمپنی آرامورے پرائیویٹ لمیٹڈ سے مدد لی تھی۔ ڈیفنس وزارت نے سوموار کو رشوت خوری کے الزام میں سی بی آئی جانچ لمبی ہونے کی وجہ سے شیلس رائس کے ساتھ سبھی موجودہ اور مستقبل کے سودوں پر روک لگادی اور برطانوی کمپنی کو ادا کی گئی رقم کو وصولنے کا بھی فیصلہ کیا۔ ڈیفنس سودوں کو روکنے سے ہماری ڈیفنس تیاری متاثر ہوتی ہے۔ سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم نے گھریلوں سطح پر ڈیفنس سازو سامان کی تیاری پر کبھی توجہ نہیں دی اور زیادہ ضرورتوں کے لئے ہمیں بیرونی ممالک کا منہ تاکنا پڑتا ہے۔ ڈیفنس سازو سامان میں رشوت یا کمیشن خوری تو چلے گی سب سے زیادہ اچھا راستہ ہے غیر ملکی کمپنیوں پر اپنے انحصار کو گھٹانا اور دیش میں ڈیفنس سازو سامان کو تیار کرنے میں مدد اور فروغ دیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟