لو بج گیالوک سبھا دنگل کا بگل!

لوک سبھا 2014 کا چناوی عمل شروع ہوگیا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک بھارت میں چناؤ کی تاریخوں کا اعلان کردیا گیا ہے۔ ویسے تو لیڈروں کے دورے اور تابڑ توڑ ہورہی ریلیوں اور بڑھتی سیاسی الزام تراشیوں کو دیکھ کر پچھلے کچھ دنوں سے دیش میں چناوی ماحول بننے کا احساس ہوچکا تھا۔لیکن اب چناؤ کمیشن نے باقاعدہ طور پر لوک سبھا چناؤ کا اعلان کردیا ہے۔ جمہوریت کے اس مہا سمر کا بگل بج چکا ہے۔ پہلی بار چناؤ 9 مرحلوں میں ہونے جارہے ہیں۔16 ویں لوک سبھا کے لئے چناؤ 7 اپریل سے شروع ہوکر 12 مئی یعنی ڈیڑھ مہینے چلیں گے۔ ووٹوں کی گنتی 16 مئی کو ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی آندھرا پردیش ،اڑیسہ، سکم کے اسمبلی چناؤ بھی ہوں گے۔ یہ پہلی بار ہے کہ دیش کا کوئی عام چناؤ 9 مرحلوں میں کرایا جارہا ہے جبکہ2009 ء میں لوک سبھا چناؤ5 مرحلوں میں کرائے گئے تھے حالانکہ پچھلی مرتبہ چناؤ عمل پورا ہونے میں 75 دن لگے تھے وہیں اس بار یہ چناوی عمل 72دنوں میں پورا ہوجائے گا۔ اتنے ٹکڑوں میں ووٹنگ کرائے جانے کو لیکر چیف الیکشن کمشنر وی ایس سمپت کی دلیل یہ ہے کہ ووٹنگ کی تاریخوں کی سفارش مانسون تہواروں اور امتحانات کو دیکھتے ہوئے اور سیاسی پارٹیوں کی تجاویز کے مطابق کی گئی ہے۔ 16 ویں لوک سبھا کے لئے ہونے جارہے یہ چناؤ بھارت کے لئے بہت اہم ہیں۔ویسے دنیا کیلئے بھی ایک سنسنی خیز اشو بننے کے ساتھ نصیحت دینے والے بھی ہوں گے۔ تمام ملکوں کیلئے یہ ایک مثال ہے کہ 81 کروڑ سے زیادہ ووٹر نئی سرکار کو قائم کرنے جارہے ہیں ۔ کچھ دیشوں میں جو اقتدار خونی لڑائی اور گولی سے ہوتا ہے بھارت میں یہ ووٹ سے ہوتا ہے۔ یہ ہی ہمارے دیش کی جمہوریت کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اپنے قسم کی انوکھی اور حیران کرنے والی آئین سازیہ کی نمائندگی کرنے والا دیش کا وسیع ووٹر گروپ ایک ہی مقصد کے لئے اکٹھا ہوگا اور وہ ہو گا اپنی پسند کے امیدواروں کے ذریعے مرکزی سرکار کا انتخاب۔ لوک سبھا انتخاب میں پہلی بار ’نوٹا‘ کا متبادل ہوگا۔ پچھلے دنوں پانچ ریاستوں میں ہوئے اسمبلی چناؤ کے دوران پہلی بار اس کا متبادل رکھا گیا تھا۔ غور طلب ہے کہ اس بار قریب 81.4 کروڑ ووٹر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ اس بار10 کروڑ نئے ووٹر ہیں ۔ ان میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جو پہلی بار اپنے ووٹ ڈالیں گے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عام چناؤ میں نہ صرف سیاست بلکہ بدلتے سیاسی اور اقتصادی حالات کی بھی جھلک ملتی ہے۔ اس بار سوشل میڈیا کا بول بالاہے۔ سیاسی پارٹیوں میں اس پر کمپین کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ یہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے کہ چناؤ میں پوسٹر ،بینر ہورڈنگ پر اتنی زیادہ توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ اس سے چناؤ خرچ میں کمی آئے گی اور ایک خاص بات اس چناؤ میں دیکھنے کو مل رہی ہے کہ اس بار چناؤ شخصیت پر مرکوز ہورہا ہے۔ پارٹی کے بجائے اس کے پی ایم امیدوار کی بات زیادہ ہورہی ہے۔ بی جے پی کے نریندر مودی کو پارٹی نے بہت پہلے ہی پی ایم امیدوار اعلان کرکے پارٹی نے لیڈ لے لی ہے۔ مودی اب تک250 سے زیادہ ریلیاں کرچکے ہیں۔ کانگریس نے ابھی تک راہل گاندھی کو پی ایم امیدوار نہیں بنایا لیکن چناؤ تو انہیں کی قیادت میں لڑا جارہا ہے اور یہ مان لیا گیا ہے کہ اگرکانگریس اقتدار میں آئی تو راہل ہی پی ایم امیدوار ہوں گے۔ چناؤ کا اعلان ہوتے ہیں اروند کیجریوال اوران کے حمایتی لیڈروں نے تشدد کا سہارا لے کر یہ اشارہ دے دیا ہے کہ اس بار چناؤ میں تشدد ہوگا۔ حالانکہ تیسرا مورچہ بھی بنا ہے لیکن ا سے ابھی تک کسی نے سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ ایک اسٹنگ آپریشن میں چناؤ سرووں پر جس طرح سے سوال اٹھے ہیں اس سے بھی کئی دعووں کی ہوا نکل گئی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے ذریعے ایک نئی سیاست کا جو تجربہ شروع ہوا ہے اس کا اصلی امتحان بھی اس چناؤ میں ہوگا۔ چناؤ تجزیہ کار 10 کروڑ نئے ووٹروں کے موڈ کو نتیجوں کے لحاظ سے فیصلہ کن مان رہے ہیں۔ایسے میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ان کی موجودگی سے چناؤ نتائج کس طرح سے متاثر ہوتے ہیں۔ نکسلی اور آتنک واد جیسی چنوتیوں کے بیچ پر امن اور غیر جانبدار چناؤ کرا پانا چناؤ کمیشن کے لئے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ اس کے لئے پیسہ، طاقت اور دبنگئی کے دخل کو کنٹرول کرنا بھی چناؤ کمیشن کی کسوٹی ہوگی۔ بیشک چناؤ کمشنر وی ایس سمپت نے کہا کہ ہم اپنے اختیارات کا استعمال کرنے میں ہچکچائیں گے نہیں لیکن تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ چناؤ کمیشن کے پاس اتنے اختیار ہیں نہیں اس لئے پہلے چناؤکی طرح اس بار بھی چناؤ آزادانہ، منصفانہ ہوں اور پیسہ ، طاقت اور دبنگئی کا استعمال کم ہو یہ سیاسی پارٹیوں پر منحصر کرے گا۔ سبھی پارٹیاں پیسے کا بیجا استعمال اور دیگر بدعنوانی کے طریقوں کوروکنے کے معاملے میں نصیحتیں تو خوب دیتے ہیں لیکن چناؤ میں ان کے استعمال سے دور رہتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟