یوکرین میں فوجی مداخلت کو لیکر روس اور امریکہ آمنے سامنے!

یوکرین اشو پر روس اور امریکہ کے درمیان بڑھتی کشیدگی پوری دنیا کے لئے تشویش کا باعث بنتی جارہی ہے۔ یوکرین نے سنیچر کو الزام لگایا کہ روس اس کے دائرہ اختیار کے علاقے میں اپنے ہزاروں فوجی بھیج رہا ہے۔ یوکرینی وزیر دفاع ایگور تینومخ نے نئی سرکار کی پہلی کیبنٹ میں کہا کہ روس کو مسلح فورسز نے 30 مسلح ملازمین اور 6 ہزار سے زیادہ فوجیوں کو کریمیا بھیجا ہے۔ان کو کریمیا میں روس حمایتی ملیشیا کی مدد کیلئے بھیجا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ روس نے جمعہ کو اپنے فوجی بغیر کسی وارننگ کے یا یوکرین کی اجازت کے بغیر بھیجنا شروع کردیا تھا۔ ادھر روس اور یوکرین کے درمیان ڈیڈ لاگ اس وقت بڑھ گیا جب ماسکو حمایتی یوکرینی لیڈر کریمیا علاقے میں فوج اور پولیس پر کنٹرول کا دعوی کیااور روس کے صدر ولادیمیر پوتن سے امن قائم رکھنے میں مدد مانگی۔ واضح رہے کہ سارا جھگڑا یوکرین کے چانو کووچ جو روس حمایتی ہیں زبردستی 22 فروری کو معزول کردئے گئے۔ پارلیمنٹ نے ایک مغربی حمایتی سرکار کو معمور کردیا جس کا ایک مقصد روسی اثر والے علاقے سے ہٹ کر یوکرین کو یوروپی فیڈریشن کے قریب لانا ہے۔ صدر چانوکووچ نے روس کے ساتھ رشتوں کو ترجیح دیتے ہوئے یوروپی فیڈریشن کے ساتھ معاہدوں کو مسترد کردیا تھا جس کے بعد یوکرین میں دھرنے اور مظاہرے کا دور شروع ہوگیا۔صدر کو معزول کردیا گیا۔ اپنے اثر والے علاقے سے نکلتے ہوئے روسی صدر پوتن نے فوجی مداخلت شروع کردی ہے۔ پچھلے جمعہ کو مسلح افراد نے کریمیا میں بڑے ہوائی اڈوں اور ایک ٹیلی کمیونی کیشن سینٹر کو قبضے میں لے لیا تھا۔ ان مسلح لوگوں کو روسی فوجی بتایا گیا ہے۔ یوکرین کی عوام دراصل دو گروپوں میں بٹی ہوئی ہے۔ دیش کا مغربی حصہ یوروپی فیڈریشن کے ساتھ قریبی رشتے کی پیروی کررہا ہے تو مشرقی اور جنوبی حصہ تعاون کے لئے روس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ کریمیا میں زیادہ تر لوگ روسی زبان بولتے ہیں۔ یوکرین کے وزیر اعظم نے راجدھانی کیو میں کیبنٹ کی میٹنگ کر روس سے اپیل کی ہے کہ وہ کریمیا میں تعطل کو گہرا کرنے کا کام نہ کریں۔ اس دوران روسی صدر ولادیمیر پوتن نے روسی پارلیمنٹ سے یوکرین میں اپنی فوج بھیجنے کے فیصلے پر مہر لگوالی ہے۔ پوتن کی درخواست کوروس کی پارلیمنٹ نے اتفاق رائے سے مان لیا ہے۔ روس کی بحریہ قریب 50 سال سے کریمیا میں رہی ہے۔ قریب 20 لاکھ کی آبادی والے کریمیا پر روس حمایتی فوج کا کنٹرول ہے۔ علاقے کی ساری عمارتوں پر روسی پرچم لہرادیا گیا ہے اور ٹی بی سینٹروں کے ساتھ ساتھ ہوائی اڈوں پر بھی روسی فوج کا قبضہ ہوچکا ہے۔ روس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پوتن نے دیش کے ایوان بالا سے کہا تھا کہ وہ انہیں 4.6 کروڑ آبادی والے اس دیش یوکرین میں اس وقت تک فوجی طاقت کی اجازت دے جب تک وہاں سیاسی حالات ٹھیک نہیں ہوجاتے۔ پوتن نے یہ بھی کہا کہ روس کو کریمیا کے بین الاقوامی معاہدے کے تحت اپنی بلیک سی فلیٹ کی بھی حفاظت کرنی ہے۔ فیڈریشن کونسل نے ایک رائے سے پوتن کی درخواست مان لی ہے۔ ادھر امریکی صدر براک اوبامہ نے یوکرین کے حالات کے پس منظر میں اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوتن کو یوکرینی سرداری کی خلاف ورزی کو لیکر آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ کریمیا علاقے سے ماسکو اپنی سکیورٹی فورسز کو واپس بلائے ورنہ سیاسی اور اقتصادی طور سے وہ الگ تھلگ پڑنے کے لئے تیار رہے۔اوبامہ کی پوتن سے 90 منٹ تک بات چیت کے بعد یہ بیان آیا ہے۔ یوروپی فیڈریشن پر اس مسئلے پر میٹنگ کررہی ہے۔ روس بنام مغربی کشیدگی آہستہ آہستہ بڑھتی جارہی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟