36 برسوں میں ڈیڑھ لاکھ کروڑ کا امپائر کھڑا کرنے والے سبرت رائے!
سہارا گروپ کے چیف سبرت رائے سہارا کی زندگی کی کہانی کسی بلاک بسٹر فلمی اسٹوری سے کم نہیں۔ گورکھپور سے مکینیکل انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کرنے والا یہ 30 سالہ نوجوان 1978 ء میں ہزار ڈیڑھ ہزار روپے سے کاروبار کی ابتدا کر 36 برسوں میں ڈیڑھ لاکھ کروڑ سے اوپر کا بزنس امپائر کھڑا کردیتا ہے۔یہ بزنس ٹائیکون کوئی اور نہیں سرمایہ کاروں کا 20 ہزار کروڑ کی ادائیگی نہ کرنے کا ملزم سہارا انڈیا پریوار کے چیئرمین سبرت رائے سہارا ہیں۔ فائننس، ریل اسٹریٹ، میڈیا، ہیلتھ کیئر، انٹرٹینمنٹ، کنزیومر گڈس، ٹورازم سمیت کئی سیکٹروں میں سرمایہ لگانے والے سبرت رائے کا بزنس آج بیرونی ممالک تک پھیل چکا ہے۔65 سالہ سبرت رائے نے 1978ء میں سہارا گروپ بنایا اور کاروبار کا آغاز گورکھپور سے ہی کیا تھا۔ اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ انہوں نے گروپ کا آغاز سہارا بینکنگ سے کرکے بڑی تعداد میں بچت کھاتہ داروں کو جوڑا اور یہیں سے ان کی کہانی میں موڑ آیا۔ گورکھپور سے شروع ہوا سہارا کا سفر آج اربوں روپے تک پہنچ چکا ہے۔ سیاست ،بالی ووڈ، اسپورٹس میں اپنی چمک اور پیسہ بکھیر کر سہارا شری کے دبدبے کو ثابت کرتے رہے ہیں۔ چٹ فنڈ سے لیکر کئی نامی گرامی کمپنیاں چلانے کے ساتھ ہی سہارا نے ریئل اسٹریٹ اسپورٹس، بالی ووڈ میڈیا کے کاروبارمیں مضبوط پکڑ بنائی۔ یہ سبرت رائے کی سخت محنت اور سوجھ بوجھ کا ہی نتیجہ ہے۔ ان کی مختلف کمپنیوں نے دیش کے لاکھوں لوگوں کوروزگار دیا البتہ ایئرلائنس بیچنے اور ہندوستانی کرکٹ ٹیم سے اسپانسر شپ واپس لینے سے سہارا گروپ تنازعوں میں رہا ہے لیکن سیبی سے ٹکر لینا سبرت رائے کو مہنگا پڑا۔ سارا معاملہ سہارا گروپ کی دو کمپنیوں سہارا انڈیا ریئل اسٹریٹ کارپوریشن، سہارا ہاؤسنگ انویسٹمنٹ کارپوریشن نے ریل اسٹریٹ میں سرمایہ لگانے کے نام پر 2008 ء سے2011ء کے درمیان متبادل مکمل ٹرانسفر ڈبینچر(او ایس سی ڈی) کے ذریعے تین کروڑسے زیادہ سرمایہ کاروں سے 17400 کروڑ روپے اکھٹے کئے تھے۔ ستمبر2009ء میں سہارا پرائم سٹی نے آئی پی او لانے کے لئے ہندوستانی ایکسچینج ریگولیٹری بورڈ (سیبی) کے سامنے دستاویز پیش کئے جس میں سیبی کو کچھ گڑ بڑیاں ہونے کا اندیشہ لگا۔ اسی درمیان روشن لال سیبی کے پاس اپنی شکایت لیکر پہنچا کہ اسے پیسہ واپس نہیں لوٹایا جارہا ہے۔ سیبی کو موقعہ مل گیا اس نے اگست2010ء میں دونوں کمپنیوں کی جانچ کے احکامات دئے اور یہیں سے سیبی بنام سہارا کی لڑائی شروع ہوئی۔ سیبی پتہ نہیں کس کے کہنے پر سبرت رائے کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑ گئی۔ سیبی نے ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے ساتھ سپریم کورٹ کو پورے معاملے میں شامل کرلیا۔ حالانکہ اگر سیبی چاہتی تو خود معاملے کی تفتیش سے لیکر شرائط نہ پورا ہونے تک معاملے خود نپٹا سکتی تھی۔ حکومت نے سیبی کو اور طاقت دینے کے لئے قانون میں ترمیم کرلی لیکن اس نے گیند سپریم کورٹ کے پالے میں ڈال دی۔ جب اتنا پیسہ آتا ہے اور اتنا رسوخ ہوجاتا ہے تو آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اب کوئی بھی طاقت اسے چھو نہیں سکتی۔ یہ ہی غلطی یا غرور کی وجہ سے سبرت رائے آج گرفتار ہوچکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے غیر ضمانتی وارنٹ پر عمل کرتے ہوئے لکھنؤ پولیس نے سبرت رائے کو آخر کار گرفتار کرلیا۔ گومتی نگر پولیس نے رائے کو سہارا سٹی سے حراست میں لیا اور سی اے جی کے سامنے پیش کیا۔ کورٹ نے پولیس او ر رائے کو ان کے وکیل کی دلیل سننے کے بعد انہیں 4 مارچ تک پولیس حراست میں بھیج دیا۔ پولیس نے سکیورٹی کا حوالہ دیتے ہوئے رائے کو فی الحال محکمہ جنگلات کے ککریل گیسٹ ہاؤس میں رکھا ہوا ہے اس سے پہلے کورٹ کے پوچھنے پر سبرت رائے نے اپنے گھر پر ہی رہنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ کچہری میں بھی پولیس نے پچھلے گیٹ سے انہیں اندر لے جاکر چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ آنند کمار کی عدالت میں پیش کیا۔ سبرت رائے نے لکھنؤ اور نئی دہلی میں ان کے بیٹے سیمانت رائے نے اپنے والد کی گرفتاری پر صفائی پیش کی اور کہا کہ سبرت رائے ماں کی میڈیکل رپورٹ لیکر لکھنؤ سے باہر ڈاکٹروں کے ایک پینل کے پاس صلاح لینے گئے تھے لوٹنے پر پتہ چلا کہ مجھے پولیس لینے آئی تھی ، میں فرار نہیں ہوا ۔بہت سے لوگوں نے مجھے صلاح دی کہ میں ہسپتال میں بھرتی ہوجاؤں، میں لکھنؤ میں ہوں اور ہاتھ جوڑ کر بڑی عجلت سے جج صاحبان سے التجا کرتا ہوں کہ عدالت مجھے 3 مارچ تک نظر بند کر مجھے بیمار ماں کے ساتھ رہنے کی اجازت دیں۔ نئی دہلی میں ٹھیک اسی وقت جب سبرت رائے گرفتار ہورہے تھے ان کے بیٹے سیمانت رائے اپنے والد کو دیش بھکت اور قانون کی تعمیل کرنے والا بتا رہے تھے۔ آناً فاناً میں جمعہ کو منعقدہ پریس کانفرنس میں سیمانتو رائے نے یہ صفائی دی کے ان کے والد نے اپنی مرضی سے لکھنؤ پولیس کے سامنے خود سپردگی کی اور وہ حکام کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔ سبرت رائے کو امیدتھی کہ سپریم کورٹ سے ان کی ماں کی بیماری کو دیکھتے ہوئے تھوڑی راحت ملے گی۔ لیکن جب انہوں نے صبح اپنے فرار ہونے سے متعلق خبر پڑھی تو انہیں بہت تکلیف ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے خود سپردگی کا فیصلہ لیا۔ سہارا گروپ نے اپنی پریس ریلیز میں کہا کہ سہارا نے سیبی کے پاس 5120 کروڑ روپے جمع کرائے ہیں۔ یہ رقم سرمایہ کاروں کو لوٹانے کے لئے ہے لیکن جب سیبی کے پاس یہ رقم جمع ہے اور پچھلے15 مہینوں میں سیبی نے صرف ایک کروڑ روپے ہی لوگوں کو دئے ہیں۔ جہاں تک 20 ہزار کروڑ روپے کی واپسی کی بات ہے سہارا پہلے ہی یہ رقم لوٹا چکا ہے۔ اس کے سپرد میں 100 سے بھی زیادہ بکسوں میں کاغذات سیبی کے پاس بھیج چکے ہیں جہاں ساری رات پارٹیاں چلتی تھیں، بالی ووڈ کا گلیمر بکھرتا تھا، فلمی ستارے تھرکنے کو جہاں بیتاب رہتے تھے ، کھیل دنیا کی نامی گرامی ہستیاں پکنک مناتی تھیں، آج سبرت رائے کی گرفتاری کے بعد سناٹا اور مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ جو سہارا شہر سبرت رائے کی آن بان شان ہے جسے زندہ دلی اور رنگینیت کا دوسرا نام مانا جاتا تھا جمعہ کی صبح سے ہی اس شہر میں سناٹا چھایا ہوا ہے۔ سوا پانچ بجے سبرت رائے کی گرفتاری ہوتے ہی سہارا شہر ویران ہوگیا۔ سہارا شہر اور تمام سہارا حمایتیوں کو یقین نہیں تھا لیکن سبرت رائے جیسی شخصیت آج سلاخوں کے پیچھے ہے۔ ایک بات تو اس سے ثابت ہوتی ہے کہ قانون سے اوپر کوئی نہیں ہے۔ آج اگر سہارا شری کو یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے تو ان کے غرور ،غلطیاں اس کی بڑی وجہ ہیں۔ ہا یہ بھی کہنا ہوگا کہ سیبی بھی ان کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑی ہوئی ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں