ساکھ چمکانے بگاڑنے میں بڑھتی سوشل میڈیا کی اہمیت!

ایک زمانہ تھا جب زیادہ تر بھارت کی عوام انٹر نیٹ کا استعمال کرنا بھی نہیں جانتی تھی لیکن پچھلی ایک دہائی نے انٹرنیٹ اب ہر گھر میں کم سے کم ہندوستان کے بڑے شہروں میں استعمال ہورہا ہے۔دیہاتی سرزمین میں بھی انٹرنیٹ پہنچ گیا ہے۔ پرچار کمپین کا انٹرنیٹ ایک بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ اس سے چاہے وہ فیس بک ہو ،ٹوئٹر ہو یا پھر دیگر نیٹ ورکنگ سائٹس ہوں۔ کمپنیاں اپنی مارکٹنگ کا فورا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ ایسے میں دیش کی بڑی سیاسی پارٹیاں ولیڈر سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرنے لگے ہیں۔ سوشل سائٹ پر اسمبلی چناؤ کے وقت سے ہی پارٹیوں سے لیکر اکیلے نیتاؤں تک کمپین کو تقویت ملی ہے۔ اب لوک سبھا چناؤ کا اعلان ہو گیا ہے۔یقیناًسوشل میڈیا اور بلاگنگ بھی اس چناؤ میں اہم کردار نبھا رہے ہیں یا نبھانے والے ہیں اور مین اسٹریم میڈیا چناؤ سے جڑی پل پل کی خبریں لوگوں تک پہنچانے میں اہم کردار نبھا رہا ہے۔ اشو کا باقاعدہ تجزیہ ہوتا ہے ، لوگ اپنے نظریئے لکھتے ہیں اور افواہیں پھیلانے تک کام ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا میں پانی، بجلی جیسے اشو کے ساتھ ساتھ کئی ایسے اشو بھی زیر بحث ہوتے ہیں جو پورے دیش کی سیاست کو متاثر کرتے ہیں۔ جس پر ایک پارٹی اپنا نقطہ نظر،پالیسی اور نظریہ رکھنا چاہتی ہے۔ اس کو زیادہ سے زیادہ عوام تک پہنچانے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ سوشل سائٹ پر چھوٹے بڑے لیڈر اپنی مقبولیت صاف ستھری بنانے کے لئے ترقی کو جنتا تک پہنچانے کی حتی الامکان کوشش میں لگی ہیں جس کے لئے سوشل میڈیا سائٹ پر کبھی کبھی کچھ انوکھے طریقے و نئی تکنیک کا استعمال بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ سوشل میڈیا لوک سبھا چناؤ نتائج کو کافی حد تک متاثر کرسکتا ہے لیکن کبھی کبھی اس کا بیجا استعمال بھی ہوتا ہے۔ جھوٹی تصویریں لگاکر، غلط نعرے لگا کر دنگے تک بھڑکائے جاتے ہیں۔ غلط اعدادو شمار دیکر جھوٹی کمپین دیکھنے کو مل رہی ہے۔ یہ سچائی ہے کہ دیش کے ہر شہری کو کسی بھی سیاسی نظریئے میں بھروسہ رکھنے اور اسے ظاہر کرنے کا حق ہے اور اسی کا چناؤ میں استعمال ہی جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔ لیکن بلاگنگ، فیس بک ،ٹوئٹر، گوگل پلان جیسے سوشل میڈیا کے ٹولز کا سوال ہے ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہم دیش کے مفاد کے لئے ان کا کیسا بہتر یا بیجا استعمال کررہے ہیں؟ انٹر نیٹ کے بھرپور استعمال اور اس کے ذریعے ٹھگی کے بھی کئی قصے سامنے آئے ہیں۔ ہندوستان میں پولنگ کا شرح فیصد ہمیشہ کم رہا ہے۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ پبلسٹی و ووٹروں کے اندر مایوسی بھی ہے۔ سوشل میڈیا کے آنے سے اس میں کمی آئی ہے اور اس کی وجہ سے ووٹ فیصد بڑھا ہے۔ خاص کر نوجوان طبقے میں۔ چناؤ کمیشن کو بھی اب سوشل میڈیا کو سیدھے طور پر استعمال کرنے کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ بیرونی ممالک میں تو آن لائن ووٹنگ کی بھی سہولت ہے۔ امریکہ میں سوشل میڈیا کا نیا کردار سامنے آیا ہے۔ اب ہمارے دیش میں بھی سوشل میڈیا کے استعمال کی سمجھ آہستہ آہستہ آرہی ہے اور اس کا اثر دیکھنے کو بھی مل رہا ہے۔ کچھ دن پہلے تفتیشی پورٹل کوبرا پوسٹ نے اسٹنگ آپریشن کے ذریعے انکشاف کیا کہ ساکھ چمکانے اور بگاڑنے کا دھندہ بھی انٹر نیٹ پر خوب چل رہا ہے۔ سرویلنس کمیشن نے پہلی بار سوشل میڈیا پر ہونے والی کمپین کو بھی اپنی نگرانی میں شامل کیا ہے اورپیسے کو چھپا کر ہر وقت ساکھ بہتر بنانے یا بگاڑنے کا جو بھی دھندہ چل رہا ہے اس پر لگام لگانا انتہائی ضروری ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟