چناؤ سے ٹھیک پہلے پھر ریزرویشن پر نہ ٹکنے والا فیصلہ!
جاٹ فرقے کو ریزرویشن ملے یا نہیں یا الگ اشو ہے سوال دیگر ہے کہ اگر یہ فرقہ طے کسوٹیوں پر پسماندہ ہے تو اسے اس کا حق ضرور ملنا چاہئے۔ مگر سوال یہاں یہ ہے کیا یوپی اے سرکار نے جاٹوں کو مرکزی سطح پر دیگر پسماندہ ذاتوں کے زمرے میں رکھنے کا فیصلہ ان تقاضوں پر کیا ہے؟ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کیا یہ فیصلہ عدالت میں ٹک پائے گا؟ منموہن سنگھ کی کیبنٹ نے ایس سی ایس ٹی ترمیم بل پر آرڈیننس لاکر ضرور لوک سبھا چناؤ سے پہلے ایک بڑا سیاسی داؤ چلنے کی کوشش کی ہے۔ اس آرڈیننس کے ذریعے جاٹوں کو پسماندہ طبقے کی مرکزی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اس سے اس فرقے کے لوگوں کو مرکزی حکومت کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے اور ملازمتوں میں ریزرویشن کا فائدہ ملے گا۔ اس بارے میں مرکزی وزیر منیش تیواری نے صاف کیا کہ سرکار کے اس فیصلے کے بعد راجستھان، یوپی ، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش، بہار، ہریانہ، ہماچل، گجرات اور دہلی کے جاٹ فرقے کے لوگوں کو فائدہ ملے گا۔ دراصل مظفر نگر فسادات کے بعد جاٹ فرقے میں پیدا ناراضگی کوروکنے کے لئے مرکزی سرکار نے چناؤ سے عین پہلے یہ فیصلہ لیا ہے ۔ عام چناؤ قریب آتے دیکھ حکومت نے قومی پسماندہ کمیشن این سی بی سی کے خلاف مخالفت کے باوجود 9 ریاستوں میں جاٹ فرقے کو ریزرویشن دینے کا فیصلہ لیا۔ این سی بی سی کا نظریہ یہاں یہ تھا کہ شیڈول کاسٹ اور درجہ فہرست قبائل کو مرکزی فہرست میں جاٹوں کو ریزرویشن دینے کی مانگ کو اتفاق رائے سے مسترد کیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جاٹ فرقہ سماجی اور تعلیمی طور سے پسماندہ فرقہ نہیں ہے۔ کیبنٹ کی میٹنگ سے پہلے سرکار کو بھیجی گئی رپورٹ میں این سی بی سی نے کہا کہ جاٹ فرقہ تعلیمی و سماجی پسماندگی کے لحاظ سے او بی سی کی مرکزی فہرست میں شامل کرنے کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا ہے۔ پچھلے سال قومی پچھڑا وگ کمیشن نے جاٹوں کی سماجی اور اقتصادی حالت جاننے کے لئے بھارتیہ سماج وگیان ریسرچ کونسل سے سروے کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس سروے کی رپورٹ ابھی نہیں آئی ہے۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت ایسا فیصلہ کرے گی تو یہ سوال تو ضرور اٹھے گا کہ ایسا ریزرویشن کے اصول میں فائدے کی نیت کے تحت فیصلہ لیا گیا ہے یا اس کے پیچھے مقصد کئی ریاستوں میں نمبروں کی طاقت کے لحاظ سے اہم اور خوشحال اس فرقے کے ووٹ پکے کرنا ہے؟ آئینی نقطہ نظر سے ریزرویشن غریبی ہٹاؤ یا روزگار مہیا کرانے کا ایک ادارہ نہیں ہے۔ اس کے پیچھے مقصد ان ذاتوں اور طبقات کو اقتدار اور فیصلے کی کارروائی میں نمائندگی دینا ہے جو تاریخی اسباب سے صدیوں سے سماجی اور تعلیمی طور سے پسماندہ ہیں لیکن بدقسمتی ہے کہ سیاسی پارٹیوں نے ریزرویشن کو ایک جذباتی اشو میں تبدیل کردیا ہے۔ اس کی بنیاد پر ذات پات کی بنیاد پر ووٹ بینک بنانے میں لگی ہیں۔ جاٹ ریزرویشن کو عدالت میں جائز ٹھہرانا آسان نہیں ہوگا۔ جاٹوں کو ریزرویشن دینے کا فیصلہ کرتے وقت حکومت نے عدالت کے ان سبھی فیصلوں کو بھلا دیا ہے جن میں پسماندگی کے اعدادشمار اکھٹے کئے بغیر ریزرویشن دینے کی ممانیت کی گئی ہے۔ لوک سبھا چناؤ کے وقت نافذ کئے گئے جاٹ ریزرویشن کا حشر کہیں اقلیتی ریزرویشن جیسا نہ ہو جس کا اعلان اترپردیش اسمبلی چناؤ سے پہلے مسلم ووٹروں کو رجھانے کے لئے کیا گیا تھا لیکن اس کا فائدہ مسلمانوں کو نہیں ملا۔ چناؤ میں یہ کتنا مفید ثابت ہوتا ہے جلد پتہ چل جائے گا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں