چناؤ سروے بین کرنا صحیح نہیں اس میں سدھار کی ضرورت ہے!

چناؤ میں مختلف پارٹیوں کی ممکنہ نوعیت دکھانے والے اوپینین پول کی معتربیت پر ایک بار پھرسوال کھڑے ہوگئے ہیں۔ایک نیوز چینل کے اسٹنگ آپریشن میں اوپینین پول کرنے والی ایجنسیوں کا جیسا چہرہ سامنے آیا ہے اس سے ایسے پولوں کی معتبریت اور معنونیت دونوں پر ہی سوال اٹھنے فطری ہیں۔ اسٹنگ میں جن ایجنسیوں کے کرتا دھرتا پولوں کے نتیجوں میں پول کرانے والی پارٹی کی مرضی کے مطابق نتیجوں میں ہیر پھیر کرنے کے لئے آسانی سے تیار دکھتی ہیں اور بدلے میں نقد رقم کو قبول کرنے کے لئے بھی تیار رہتی ہیں۔ اس سے پولوں سے عوام کا یقین اٹھ جائے گا۔ اسٹنگ میں سی۔ ووٹر کی سینئر افسر کو اس بات کے لئے راضی ہوتے دکھایا گیا ہے کہ من مطابق بھگتان ملنے پر اس کی ایجنسی مانگ کے مطابق آنکڑے پیش کرسکتی ہے۔ اس میں انہوں نے ایجنسی کے منیجنگ ڈائریکٹر کی مرضی بھی بتائی ہے۔اس اسٹنگ سے سودے بازی کے ساتھ ہی آنکڑوں کی ہیرا پھیری کے طریقوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔ پوچھا گیا کہ اگر سروے میں کسی پارٹی کو 10 سیٹیں ہی مل رہی ہوں تو اسے زیادہ کیسے دکھایا جاسکتا ہے۔ جواب تھا یہ مان کر چلا جاتا ہے کہ 3 سے5 فیصدی متوقعہ ووٹوں کی غلطی ہوسکتی ہے۔ اگر سیٹیں بڑھا کر دکھانے کی ضرورت ہو تو اس فرق کو جوڑدیا جائے گا۔ ایجنسی کی افسر ادائیگی کا بڑا حصہ نقد شکل میں لینے کو بھی تیار دکھائی دیں۔اس سے اشارہ ملتا ہے کہ رائے شماری کے دھندے میں کالے دھن کا بھی کردار ہوسکتا ہے۔ اگر پیڈ نیوز گناہ ہے تو اس طرح کی رائے شماری کیا ہے؟یہ بھی کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عوامی رائے شماری کے کئی بار پہلے کے اندازے غلط ثابت ہوئے ہیں۔ کانگریس اور ’آپ‘ پارٹی نے اس پر پوری طرح پابندی لگانے کی مانگ دوہرائی ہے۔ ’آپ‘ پارٹی نے چناؤ کمیشن سے کوڈ آف کنڈیکٹ جاری کر ایک ریگولیٹری اتھارٹی بنا کر اسے ریگولیٹ کرنے کی اپیل بھی کی ہے۔ ادھر چیف الیکشن کمشنر وی ایس سمپت نے کہا ہے کہ چناؤ کمیشن نے اوپینین پول پر اپنی سفارشیں 10 سال پہلے ہی سرکار کو بھیج دی تھیں اور اس پر کارروائی اب سرکار کو کرنی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اوپینین پول پر پابندی لگانا مناسب ہوگا؟ ہر ترقی یافتہ جمہوری دیش میں جنتا کا رجحان جاننے کے لئے سروے ہوتے ہیں۔ اس لئے ایسے سروے بنیادی طور سے برے ہیں اور ان پر پابندی لگنی چاہئے۔ ہماری رائے میں صحیح نہیں ہوگا۔ دراصل مسئلہ سروے نہیں بلکہ انہیں کرنے کے دوران ہونے والی مبینہ بے ایمانی ہے۔ سماج کے سبھی طبقوں کی طرح سروے ایجنسیاں بھی اچھی اور بری ہیں۔ ایسے میں بہتر تو یہی ہوگا کہ سرکار و چناؤ کمیشن ایسا ڈھانچہ بنائے جس سے سرووں میں ارادتاً چھیڑ چھاڑکرنے والی ایجنسی کو سزا دی جا سکے۔دراصل سروے کے میدان کے ماہرین بھی یہ مانتے ہیں کہ کسی چناؤ میں پارٹیوں کا متوقعہ ووٹ فیصد بتا پانا کافی حد تک ممکن ہے لیکن مسئلہ تب آتا ہے جب ووٹ فیصد کی بنیاد پر سیٹوں کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ یہ سبھی مانتے ہیں کہ اب تک کوئی بھی ایسا مکمل طریقہ تیار نہیں ہوا ہے جو ووٹ فیصد کی بنیاد پر پارٹیوں کو ملنے والی سیٹوں کا صحیح اندازہ بتا سکے۔ بہرحال اب سرکار اور سروے ایجنسیوں دونوں کو اپنی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔سرکارکو فوراً ان کے ریگولیشن کے لئے ایک مناسب مکینیزم بنانا ہوگا اور سروے کرنے والی ایجنسیاں اپنے درمیان موجود غلط لوگوں اور پیسوں کے لالچ میں آنے والے غلط لوگوں کو پیشے سے باہر کا راستہ دکھائیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟