تہلکہ کے ترون تیج پال قانون سے بالاتر نہیں،قانون اپنا کام کرے!

تفتیشی صحافت میں اپنا نام کمانے والے تہلکہ کے مدیر ترون تیج پال نے ایک ایسی گھناؤنی حرکت کی ہے جس سے تمام میڈیا والے چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ ترون تیج پال جیسا صحافی مدیر ایسی غلط حرکت کرسکتا ہے کبھی سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ الزام ہے تہلکہ کی ساتھی خاتون جرنلسٹ کی تیج پال نے دوبار آبروریزی کی۔ واقع 8 سے 10 نومبر کے درمیان کا تھا۔ تہلکہ یونٹ گوا میں ایک ایوینٹ کے دوران تیج پال نے شراب کے نشے میں ساتھی خاتون صحافی کو ہوٹل کی لفٹ میں کھینچ لیا تاکہ اس کا جنسی استحصال کرسکیں۔ یہ خاتون ترون تیج پال کی بیٹی کی سہیلی بھی ہے اور اس نے تیج پال سے کہا بھی کہ میں آپ کی بیٹی کے برابر ہوں برائے کرم یہ سب نہ کریں لیکن تیج پال نے زور زبردستی کی ۔ ترون تیج پال کا جب یہ راز کھلا تو وہ خود ہی جج بن گئے اور خود ہی اپنے آپ ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کرلیا۔ اپنی کالی کرتوت کے چلتے تیج پال نے ایک ای میل کے ذریعے تہلکہ کی منیجنگ ایڈیٹر شوما چودھری کو لکھا کہ میں اپنا قصور مانتا ہوں اور میں نے متاثرہ سے معافی بھی مانگ لی ہے۔ غیرمتوقع طور پرگروپ سے چھ مہینے کے لئے استعفیٰ دے رہا ہوں۔ شوما چودھری نے اپنے اسٹاف کو ایک ای میل جاری کرکے اس معاملے کی جانکاری دیتے ہوئے کہا یہ افسوسناک واقعہ ہے۔ پچھلے چھ دنوں سے جاری فلم فیسٹول کے دوران گوا کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں یہ واقعہ ہوا۔اس کے لئے ترون تیج پال نے معافی مانگ لی اور اپنے آپ ہی چھ مہینے کی چھٹی پر رہیں گے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ متعلقہ رپورٹر نے بھی انہیں معاف کردیا ہے۔ متاثرہ نے جمعہ کو انتظامیہ کے رویئے پر ناراضگی جتائی کہا کہ میں مطمئن نہیں ہوں۔ میرے معاملے میں مینجمنٹ کے ذریعے سخت کارروائی نہیں کی گئی۔ نہ شکایت کمیٹی بنی۔ تیج پال کے خلاف پختہ کیس بنانے کے لئے متاثرہ کو پولیس اور مجسٹریٹ کے سامنے بیان دینا ہوگا۔ ایک باقاعدہ شکایت کرنی ہوگی تاکہ اس کی بنیاد پرپولیس ایف آئی آر درج کر کارروائی کرسکے۔ لیکن جہاں تک میڈیا میں چھپی خبروں کے مطابق متاثرہ نے ابھی کوئی باقاعدہ شکایت نہیں درج کرائی۔ ادھر تہلکہ والے معاملے کو رفع دفع کرنے میں لگے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ کبھی کہتے ہیں متاثرہ نے تیج پال کی معافی منظور کرلی ہے اور اسے معاف کردیا ہے سوال محض متاثرہ و تیج پال کا نہیں یہ ایک جرم ہے اور معاملہ سرکار بنام تیج پال بنتا ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ گوا میں رونما ہوا اس لئے گوا پولیس اس معاملے میں حرکت میں آچکی ہے۔ گوا کے وزیر اعلی منوہر پاریکر نے بڑی انتظامیہ اور پولیس افسران کے ساتھ پنجی میں واقعے پر میٹنگ کرکے ابتدائی جانچ کے احکامات دئے ہیں۔ پولیس نے جس پانچ ستارہ ہوٹل میں یہ واقعہ ہوا اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی مانگے ہیں۔ انہوں نے واقعہ کا خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کو آگے بڑھنے سے انکار نہیں کیا ہے۔ دہلی میں رہنے والی متاثرہ خاتون صحافی کا بیان لینے کا بھی پلان بنا رہی ہے۔ پاریکر نے کہا جانچ شروع کردی گئی ہے اگر ہم تیج پال کے خلاف کچھ ٹھوس ثبوت پاتے ہیں تو معاملہ درج کیا جاسکتا ہے کیونکہ واردات گوا میں ہوئی ہے پولیس رپورٹ کے بعد ہی میں کچھ بولنے کی پوزیشن ہوں گا۔ قومی مہلاکمیشن نے کہا کہ جنسی استحصال کا شکار خاتون کو پولیس کے پاس باقاعدہ شکایت درج کرانی ہوگی۔ کمیشن کی ممبر نرملا پربھاتکر کا کہنا ہے کہ ہم نے جو ای میل پڑھے ہیں اس سے یہ معاملہ عزت چھننے سے بھی بڑا لگتا ہے۔ حالانکہ ان کے میل کی تصدیق ہونی ہے یہ ایک سنگین اشو ہے اور ضابطوں کی واضح خلاف ورزی ہے۔ میڈیا سے وابستہ تمام انجمنوں نے چاہے وہ ایڈیٹرز گلڈ ہو، پریس کلب آف انڈیا ہو یا وومن پریس کلب ہو سبھی نے سخت الفاظ میں اس واقعہ کی مذمت کی ہے اور ملزم ترون تیج پال کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے میڈیا میں کام کررہی تمام خاتون صحافیوں کو اس واردات سے مایوس نہیں ہونا چاہئے اور نہ گھبرانا چاہئے یہ اپنے آپ میں ایک منفرد معاملہ ہے۔ اس سے تمام میڈیا غلط نہیں ہوجاتا۔ امید کی جاتی ہے جانچ سچائی تک پہنچے گی اور اس کیس کے سارے حقائق سامنے آئیں گے۔ ان کی بنیادپر قانون اپنا کام کرے گا۔ چاہے ملزم کتنا بڑے اثر والا کیوں نہ ہو، پوزیشن والا کیوں نہ ہو قانون سب کے لئے برابر ہے۔ ہم اس واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ قصوروار کو قانون کے تحت سزا ملے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟