اعتراض سچن کو سمانت کرنے کا نہیں، کانگریس کے سلیکشن کے رویئے پر!

ایتوار کی رات کو میں چینل ون پر گیا ہوا تھا۔ چرچا کا موضوع تھا بھاجپا کا اٹل جی کو بھارت رتن ایوارڈ دینا۔گرما گرم بحث ہوئی میرے ساتھ بھاجپا اور کانگریس کے اسپیکر بھی تھے اور ایک راج نیتک جانکاربھی۔ میں نے اس چرچا میں یہ مدعا رکھا کے اعتراض اس بات پر نہیں کہ سچن کو بھارت رتن کیوں دیا گیا اور اس بات پر بھی نہیں کہ اٹل جی کو کیوں نہیں دیاگیا۔مدعا یہ ہے کہ یہ راشٹریہ سنمان ہے یابرسر اقتدار کانگریس پارٹی کا نجی سنمان؟ کیا دیش کانگریس پارٹی کی نجی جاگیر ہے جس میں جسے چاہے ، جب چاہئیں سنمانت کردیں؟یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مجھے سچن کو بھارت رتن دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے،انہیں ملنا بھی چاہئے۔ اعتراض اس بات کا ہے کہ سچن سے پہلے اس سنمان کے کئی حقدار ہیں۔ انہیں پہلے کیوں نہیں دیا گیا؟ میں نے میجر دھیان چند کی مثال دی۔ بات15 اگست 1936ء کی برلن اولمپک کی ہے۔ ہاکی کے فائنل میچ بھارت بنام جرمنی تھا۔ اسٹیڈیم میں ہٹلر خود موجود تھے۔ فائنل کے اس میچ میں دھیان چند کی ٹیم نے جرمنی کو 9-1 سے ہرایا۔ میچ ختم ہونے کے بعد ہٹلر نے دھیان چند کو بلوایا اور ان سے کہا کہ آپ جرمنی آجائیں، منہ مانگے پیسے دیں گے۔آپ ہماری ٹیم کو اپنا جادو سکھائیں۔ دھیان چند نے دو ٹوک جواب دیا میں اپنے دیش کے لئے ہی کھیلتا ہوں ۔اس وقت جب ہٹلر دنیا کے سب سے طاقتور انسان تھے انہیں اس طرح سے دو ٹوک جواب دینا معنی رکھتا تھا۔ پہلی بار انترراشٹریہ کھیلوں میں بھارت کا ترنگا لہرایا۔ دھیان چند نے تین گولڈ میڈل لگاتار جیتے۔ کیا دھیان چند کو’ بھارت رتن‘ سنمان نہیں ملنا چاہئے تھا۔کھیل منترالیہ نے چھ مہینے پہلے اس کی سفارش بھی کی تھی۔دوسرا اعتراض ٹائمنگ پر تھا۔حال ہی میں سچن کو راجیہ سبھا کاسانسد بنایا گیا۔ اب اسے راتوں رات بھارت رتن دے دیا گیا۔ اب اس سے چناوی پرچار کرانا ایسے وقت جب چناؤ کلائمکس پر چل رہے ہیں اس طرح سے سنمان دینا کیا کانگریس کے لئے صحیح ہے؟ اگر اپوزیشن اس پر ہنگامہ کررہی ہے تو غلط کیا ہے ، اگر بھارت رتن پدم ایوارڈ راشٹریہ ایوارڈ ہے تو ہم مانگ کرتے ہیں کہ اس میں سلیکشن کے لئے ایک کمیٹی بنے۔ جس میں سبھی اپوزیشن کے پرتیندھی ہوں۔ عام سہمتی یا بہومت کے آدھار پر پورا کر پانے والوں کا سلیکشن ہو۔ آپ اپنے سابق پردھان منتریوں کو تو سنمان دیتے رہے ہیں پر سبھاش چندر بوس کے لئے نہیں دیتے کیونکہ وہ کانگریس وچار دھارا سے الگ رائے رکھتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو برسراقتدار پارٹی کی گڈ لک میں نہیں ہے اسے یہ سنمان نہیں ملے گا۔ پدم ایوارڈ کی تو حالت یہ ہے کہ کانگریسی نیتا اپنے رشتے داروں کے نام کسی بھی ایسے ایرے غیرے کا نام دے دیتے ہیں اور اسے ایوارڈ دے دیا جاتا ہے۔ صحافیوں کے کوٹے کا تو یہ حال ہے کہ دو برس پہلے پورے بھارت میں برسر اقتدار پارٹی کو ایک بھی صحافی ایسا نہیں ملا جو اس انعام کا حقدار ہو۔ کانگریس پارٹی نے تو ان سنمانوں کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ان انعاموں کے سلیکشن کا طریقہ بدلیں اور جو اصل میں اس سنمان کا حقدار ہے اسے چنا جائے۔ کل کو اگر این ڈی اے اقتدار میں آتی ہے تووہ بھی ماپ ڈنڈ رکھے گی تو ہم اس کی بھی مخالفت کریں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!