تاکہ دہلی میں پر امن ، منصفانہ اور شفاف اسمبلی چناؤ ہوں!

دہلی اسمبلی چناؤ ہرطریقے سے صاف اور تشدد سے پاک اور آزادانہ چناؤ ہوں یہ چناؤ کمیشن کے لئے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ اس بار2008 ء کے مقابلے دہلی چناؤ زیادہ دلچسپ اور چیلنج بھرے ہونے جارہے ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے ذریعے دہلی کی سبھی 70 اسمبلی سیٹوں پر امیدوار اتارنے کی وجہ سے پچھلی بار کے مقابلے اس مرتبہ امیدواروں کی تعداد کافی زیادہ ہوگئی ہے۔ حالانکہ چناؤمیدان میں آخری مقابلہ کس سے ہونا ہے یہ تو کاغذات کی جانچ پڑتال کے بعد پتہ لگے گا اور پرچے بدھوار کی شام یعنی آج واپس لئے جاسکیں گے لیکن سنیچر کی شام پرچے داخل کرنے کی میعاد ختم ہونے کے بعد یہ صاف ہوگیا ہے اس مرتبہ چناؤ میدان میں پہلے سے زیادہ امیدوار اپنی قسمت آزمائیں گے۔ دہلی کے چیف چناؤ افسر وجے کمار دیو کے مطابق سنیچر کو 781 امیدواروں نے پرچے داخل کئے تھے۔ اب تک 1150 امیدواروں نے 1800 نامزدگیاں داخل کی ہیں جو 2008ء کے مقابلے زیادہ ہیں۔ پچھلے اسمبلی چناؤمیں1134 امیدواروں نے اپنے پرچے داخل کئے تھے۔ چناؤکمیشن کے لئے اتنی کثیر تعداد میں امیدواروں کے چناؤکی تیاریاں ایک بڑا چیلنج ہوں گی۔ چناؤ میں ہر قیمت پر ووٹ ڈلوانے کے لئے عورتوں کو گھر سے باہر نکالنے کیلئے بھی ایک بڑی آزمائش ہوگی۔ آج بھی بڑی تعداد میں ایسی سیٹیں ہیں جہاں تمام کوششوں کے باوجود ووٹ فیصد بڑھ نہیں پا رہا ہے۔ پچھلے چناؤ میں دہلی چھاؤنی، جنگ پورہ، کستوبا نگر، پٹیل نگر، مٹیا محل، موتی نگر، چاندنی چوک، صدر بازار، مہرولی، تغلق آباد سمیت دیگر سیٹوں پر سب سے کم ووٹ فیصد رہا۔ ایسے اسمبلی حلقوں میں جہاں ذات پات فیکٹر زیادہ ہوتا ہے یا کرائم گراف زیادہ ہو انہیں حساس زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر حساس اور انتہائی حساس پولنگ بوتھوں کو بنایا جاتا ہے۔ اور سیاسی دباؤ کے درمیان یہاں ووٹروں کوووٹ کے لئے لاناایک بڑا چیلنج ہوگا۔ دبنگوں کو کو روکنے کے لئے پختہ انتظام کرنے ہوں گے۔ چناؤ دفتر میں دہلی پولیس کے ساتھ مل کر یوپی ہریانہ کے دبنگ لوگوں کی پہچان کی گئی ہے جو چناؤ کے دوران دہلی پہنچ کر چناؤ میں گڑ بڑ پھیلا سکتے ہیں۔ دہلی اسمبلی چناؤ کو پرامن اور منصفانہ اور ٹھیک ٹھاک طریقے سے انجام دلانے کیلئے ان دبنگی لوگوں پر دن رات نظر رکھنی ہوگی۔ دہلی کی کچھ سیٹیں ہریانہ اور اترپردیش سرحد سے لگی ہوئی ہیں۔ اس کے چلتے سیٹوں پر سب سے زیادہ جعلی ووٹ پڑنے کا خطرہ رہتا ہے۔ ایسی سیٹوں میں اوکھلا، ترلوک پوری، کونڈلی، پٹ پڑ گنج، وشواس نگر، شاہدرہ، سیما پوری، گوکل پوری، کراول نگر وغیرہ شامل ہیں۔ پرانے دھرندر لیڈروں کو چناؤ ضابطے کی وجہ سے ان کے حوصلے آہستہ آہستہ پست ہوتے جارہے ہیں لیکن چناؤ میں اترنے والے نئے لیڈروں کو ضابطہ سمجھانا چناؤ کمیشن کے لئے ایک بڑی مشقت ہوگی کیونکہ جو امیدوار پہلی بار میدان میں ہوں گے ان کے لئے گڑ بڑی کا امکان زیادہ ہوگا۔ اس کے علاوہ چناؤ کمیشن نے کئی ضابطے پہلی بار لاگو کئے ہیں۔ پرامن طریقے سے ووٹ ڈلوانے کے لئے 11 ہزار سے زیادہ پولنگ بوتھ پر سکیورٹی جوان تعینات کرنے جارہے ہیں۔ ڈیوٹی کی جگہ سے ملازمین ووٹ نہیں ڈال پاتے ان کا ووٹ پانے کے لئے چناؤ کمیشن نے اس بار پہلے ہی بیلٹ بھروانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے ووٹ فیصد بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس بار لیڈروں نے مہینوں پہلے ہی سوشل میڈیا کے ذریعے چناؤمہم چھیڑ دی ہے۔ اس طرح اگر کسی کے کھاتے میں کوئی ووٹ کٹتا ہے تو یہ چناؤ کمیشن کیلئے پریشانی پیدا کرسکتا ہے۔ چناؤ کی بڑی مہم تو آسانی سے پکڑ میں آسکتی ہے اس کی نگرانی کے لئے کئی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ عالیشان کالونیوں میں مسلسل ووٹ فیصد اور ووٹروں کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔ ان علاقوں میں ووٹ فیصد بڑھانا بھی ایک بڑا چیلنج ہوگا۔ ان علاقوں میں نئی دہلی، چاندنی چوک، دہلی چھاؤنی وغیرہ وغیرہ کئی سیٹیں شامل ہیں۔ چناؤکمیشن کیلئے ایک بڑی چنوتی ہے جعلی ووٹر۔ چناؤ کمیشن نے لمبی جانچ کے بعد دہلی بھر میں 14 لاکھ فرضی ووٹروں کی تلاش کی تھی۔1.57 فیصد ڈپلیکیٹ اور8500 ادھورے کارڈ ملے تھے۔ یہ ووٹر پھر سے سرگرم نہیں ہوں اس بار سخت نظر رکھنی ہوگی۔ ان پر نگرانی کمزور پڑی تو فرضی ووٹ کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ دہلی میں پولنگ فیصد کو بڑھانے کیلئے چناؤ کمیشن ایک کے بعد ایک پہل کررہا ہے۔ اس بار اس کا نشانہ عورتیں ،لڑکے ،لڑکیاں اور سرکاری ووٹروں کی رائے پانا ہے۔ اس کے لئے خاص مہم چلائی جارہی ہے لیکن اس کا کتنا اثر پڑتا ہے یہ تو پولنگ کے بعد ہی سامنے آئے گا۔ آخر میں پہلی بار ان انتخابات میں ووٹر کو زیادہ حق ملے گا۔ اسے کوئی امید اگر پسند نہیں ہے تو NOTA بٹن دبا سکتا ہے۔ حالانکہ یہ حق پہلے ووٹر کے پاس تھا لیکن ووٹنگ مشین میں اس کی سہولت نہیں تھی۔ اس حق کے استعمال کے لئے ووٹر کو چناؤ افسر کے پاس جانا ہوتا تھا۔ پہلے یہ پانچ اسمبلی چناؤ میں نافذ کئے جانے کا امکان ہے۔ سپریم کورٹ نے چناؤ کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ پرچی سسٹم لاگو کرے۔ ووٹر نے کس کو ووٹ دیا ہے اس کے ثبوت میں پرنٹ آؤٹ دینا ہوگا۔ پتہ نہیں اس کی تیاری کتنی ہورہی ہے لیکن منصفانہ شفاف چناؤ کے لئے یہ ضروری ہے ۔ امید کی جاتی ہے چیف الیکٹرول آفیسر جو ایک قابل اور اچھے منتظم ہیں اس بار دہلی میں ایسے چناؤ کروا لیں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!