اس سڑک چھاپ سیاست سے کسی کا بھلا نہیں ہونے والا!

جس طریقے سے کانگریس اور بھاجپا کے درمیان انتہائی بھدی سطح کی الزام تراشیوں کا سلسلہ اس چناؤ میں دیکھنے کومل رہا ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھا یہ تو سڑک چھاپ سیاست چل رہی ہے۔ یہ سلسلہ گجرات اسمبلی چناؤ کے دوران سے شروع ہوا اور اب آہستہ آہستہ دو قدم آگے بڑھ گیا ہے۔ کانگریس نے گجرات اسمبلی چناؤ میں نریندرمودی پر شخصی حملے کئے اور انہیں موت کا سوداگر تک کہہ دیا گیا۔ انہیں بندر اور ان کی شادی کو لیکر سوال اٹھائے گئے۔ وہیں گودھرا کانڈ کے بعد ہوئے فسادات اور تشدد میں ان کے مبینہ رول کو لیکر سوال اٹھائے گئے۔ نریندر مودی نے بھی اسی زبان میں جواب دیا۔ کانگریس قیادت پر شخصی حملے کئے۔ آج عالم یہ ہے کہ آئے دن چناؤ کمیشن میں شخصی حملوں کے معاملوں کو لیکر شکایتیں پہنچ رہی ہیں۔ حالانکہ گذشتہ برس گجرات اور ہماچل پردیش میں کی گئی شکایتوں سے کم ہیں لیکن پولنگ میں ابھی وقت ہے جسے دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ کہیں موجودہ چناؤکا ریکارڈ نہ توڑ ڈالیں۔ اعتراض آمیز بیان بازی کی دور جاری ہے۔ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے اندور میں ایک ریلی میں یہ سلسلہ شروع کیا تھا۔ 25 اکتوبر کو راہل گاندھی نے مظفر نگر فسادات کے لئے بھاجپا کو ذمہ دار ٹھہرایا اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ فساد متاثرین میں ایسے 10 سے15 مسلمان لڑکے ہیں جن کے بھائی بہن کو مارا گیا۔ ان خاندانوں سے پاکستان کی خفیہ ایجنسی رابطے میں ہے اورا نہیں بھڑکا رہی ہے۔ راہل کے اس بیان پربھاجپا سمیت پورے دیش میں سخت رد عمل ہوا۔ مودی نے ایک ریلی کوخطاب کرتے ہوئے کانگریس صدر سونیا گاندھی پرتلخ حملے کرتے ہوئے کہا کہ میڈم بیمار ہیں تو شہزادے کو باگ ڈور ملنی چاہئے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ چھتیس گڑھ کی طرف سے مرکز کے پیسے کے استعمال کو لیکر راہل گاندھی پر سوال داغ دیا کیا یہ پیسہ ان کے ماما کے گھر سے آیا ہے۔ سماج وادی پارٹی کے ایم پی نریش اگروال نے مودی سے سوال کر ڈالاکہ ایک چائے بیچنے والے کا نظریہ کبھی قومی سطح کا نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا جیسے کسی سپاہی کو کپتان بنا دینے پر اس کا نظریہ کپتان جیسا نہیں ہوسکتا وہ کانسٹیبل جیسا ہی برتاؤکرے گا۔ کانگریس نے مودی پرحملہ کرتے ہوئے اسے ’دانو ‘ تک کہہ دیا۔ 7 نومبر کو راج نند گاؤں میں نریندر مودی نے لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ ریاست میں کسی خونی پنجے کا ساتھ نہیں دیں اس لئے وہ کانگریس کو ووٹ نہ دیں۔ اب کانگریس نے صاحب کے جاسوسی کانڈ پر ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسی سڑک چھاپ سیاست سے کس کا بھلا ہورہا ہے؟ کانگریس کی حکمت عملی توسمجھ میں آرہی ہے کہ وہ نریندر مودی کو بلا وجہ کے اشو پر الجھا کر اصلی مدعوں سے بھٹکا رہی ہے۔اصل مسئلے ہیں مہنگائی ،بے روزگاری اور سسٹم، نوجوانوں کا مستقبل، خارجہ پالیسی وغیرہ وغیرہ اس پر تو کوئی بات نہیں کررہا جس سے عام جنتا کا سیدھا تعلق ہے اور فضول کی بحث ہورہی ہے۔ مجھے یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ بھاجپا ان اشو پر توجہ کیوں نہیں دیتی؟ اگر کانگریس کو اپنی ساری توجہ ترقی اور بھاجپا حکمراں ریاستوں میں سرکار کی کارگزاری دیکھنی چاہئے۔ نریندر مودی کوجنتا کو یہ بتانا چاہئے کہ وہ مہنگائی اور بدانتظامی ، خارجہ پالیسی میں آئی گراوٹ کو کیسے دور کریں گے؟ اپنی پالیسیاں ، بھاجپا حکمراں ریاستوں میں ترقی، اچھی حکومت اور قانون و نظام پر زیادہ زور دینا چاہئے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟