اور اب آئی سی یو میں گھس کر گولیاں داغیں

گوڑ گاؤں میں ایک ہسپتال میں ہوئی فائرنگ نے چونکادیا ہے۔ ایسے پہلے شاید کبھی ہوا ہے کہ ہسپتال کے آئی سی یو میں گھس کر مریضوں پر گولیاں چلائی گئی ہوں؟ مگر ایسا ہوا ہے گوڑ گاؤں کے سن رائس ہسپتال میں۔ باپ بیٹے آئی سی یو میں بھرتی تھے اس سے پہلے دونوں گروپوں میں مار پیٹ ہوئی۔ مارپیٹ میں ستبیر نامی شخص شدید طور سے زخمی ہوگیا۔ ستبیر کا بیٹا جوگیندر عرف جانی اسے گاؤں کے ہی ہسپتال میں لے گیا۔ اس کی نازک حالت کو دیکھتے ہوئے اسے آئی سی یو میں منتقل کیا جارہا تھا کہ اسی وقت دوسرے گروپ کے 8-9 لوگوں نے باپ بیٹے پر تابڑ توڑ پانچ گولیاں برسا دیں۔ پولیس کے مطابق جوگیند کے سر اور پیر میں گولیاں لگی ہیں اور ستبیر کے کندھے میں۔ مارپیٹ کے دوران اس کے سر میں شدید چوٹیں آئیں ہیں۔ ڈی سی پی نے بتایا کھانڈسا گاؤں میں ڈیڑھ سال پہلے جوگیندر اور منوج میں پراپرٹی کو لیکر جھگڑا شروع ہوا تھا۔ اس میں منوج کی شکایت پر جوگیندر اور اس کے چچیرے بھائی کے خلاف اقدام قتل کا معاملہ درج کیا گیا تھا۔ یہ معاملہ کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ منگل کو سماعت کے دوران دوسرے گروپ کے لوگوں نے ان پر جان لیوا حملہ کردیا۔ زخمی باپ بیٹے اب میدانتا ہسپتال میں زیر علاج ہیں جہاں ان کی حالت ابھی نازک بتائی جاتی ہے۔ ڈی سی پی کرائم مہیشور دیال نے بتایا کہ ملزمان کی دھڑ پکڑ کے لئے پانچ پولیس ٹیمیں بنائی گئی ہیں۔ دونوں لڑکوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ حملہ آوروں کو پکڑنے کی کوشش جاری ہے۔ اس معاملے میں پولیس کی لاپرواہی اجاگر ہوئی ہے۔ اگر کورٹ میں سماعت کے دوران دونوں گروپوں میں ہوئے جھگڑے کو پولیس سنجیدگی سے لیتی تو شاید یہ تکلیف دہ حالات نہ پیدا ہوتے۔ وہیں میدانتا ہسپتال میں علاج کے دوران بیٹے کی موت کے بعد باپ کو دہلی ریفر کیا جانا بھی سوالوں کے گھیرے میں بتایا جارہا ہے۔ لیکن اتنا طے ہے کہ جب شہری اور دیہاتی علاقے کی 90فیصدی آبادی شہر کے انہی ہسپتالوں کے سہارے ہے۔ کئی ہسپتالوں میں میٹل ڈٹیکٹر تک نہیں ہے۔ کچھ بڑے ہسپتالوں میں ضرور خانہ پوری کے طور پر لگے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب ان ہسپتالوں میں فائرنگ کے واقعات ہونے لگے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج گوڑ گاؤں کا پھیلاؤ عالمی سطح کے شہر کی شکل میں ہورہا ہے۔ یہ شہر دنوں دن میڈیکل ہب بنتا جارہا ہے لیکن شہر کا دوسرا حصہ ایسا بھی ہے جس میں پرانے وقت کے کئی قدیمی ہسپتال بہتر علاج کا تو دم بھرتے ہیں لیکن سکیورٹی کو لیکر سنجیدہ نہیں ہیں۔ کئی میں تو گارڈ تک نہیں ہیں۔اگر سرکشا انتظامات صحیح ہوتے تو حملہ آور ہتھیار لے کر ہسپتال میں گھسنے کی جرأت نہیں کرپاتے اور ایک بڑے واقعہ سے بچا جاسکتا تھا۔
(انل نریندر)


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟