نہیں رہے بھارت کے انمول رتن پنڈت روی شنکر

بھارتیہ شاستری سنگیت کومغربی ممالک سمیت پوری دنیا میں مقبولیت دلانے والے مہان ستاروادک اور کمپوزر پنڈت روی شنکر نہیں رہے۔ ستار کے اس سرتاج کا امریکہ کے شہر سینڈڈیگو میں ہندوستانی وقت کے مطابق صبح6 بجے دیہانت ہوگیا۔ وہ92 برس کے تھے۔ پنڈت روی شنکر کے سازوں کے جادو کا اثر یہ تھا کہ دی ویلز جارج ہیری سن اور یہودی مینوہن جیسی سرکردہ شخصیات بھی ان سے زبردست متاثر تھیں۔ مغربی ممالک میں ہر گھر میں پہچان بنا چکے پہلے ہندوستانی تھے پنڈت روی شنکر ایک مکمل میوزک ماہر تھے اس لئے انہوں نے سنگیت کو کسی شیلی دھارا یا جغرافیائی حد کے اندر باندھ کر نہیں رکھا۔ سیکھا اور رچا۔ تاعمر مختلف شیلیوں کے انداز سے ملاتے ہوئے اپنے ستار کو زندہ رکھا۔ عالمی سنگیت میں بھارت کے وقار کو بنائے رکھا۔ یوں تو پنڈت روی شنکر نے میہر گھرانے کے استاد الاؤالدین خاں سے باقاعدہ ہندوستانی شاستری سنگیت میں ستار کی تعلیم لی تھی۔ مگر جلد ہی انہوں نے لوک سنگیت اور پاشچتے سنگیت وغیرہ کو جوڑ کر نئے تجربے کئے۔ اس میں انہیں آل انڈیا ریڈیو کی نوکری کرتے وقت زیادہ آسانی ہوئی۔ حالانکہ ان کے سنگیت کا سفر اپنے بھائی اور مشہور ڈانسر ادے شنکر کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ جب وہ 10 سال کے تھے تو انہوں نے مختلف ملکوں کے دوروں پر جانا شروع کردیا تھا۔ اس دوران انہوں نے مختلف واد انسٹومنٹ بجانا سیکھا ۔ ساتھ ہی کئی زبانی اور مختلف ملکوں کا سنگیت بھی سیکھنے کی کوشش کی۔18 سال کی عمر تک روی شنکر اپنے استاد کے ساتھ رہے لیکن نرتیہ کلا میں عالمی پہچان بنانے کا حوصلہ ان میں آگیا اور انہوں نے ستار کے تاروں کو اپنی روح کی آواز بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ کیریئر اور کامیابی کے مقابلہ جاتی دور میں اس فیصلے کے پیچھے شدت کو سمجھنا تھوڑا مشکل ہے۔ روی شنکر کے لئے یہ فیصلہ محض اپنے راستے اپنی منزل پانے کی دھن بھر نہیں تھا۔ دراصل نرتیہ کا ساتھ چھوڑ کر وادن میدان میں آنے کا فیصلہ کیا۔ ان کی انتھک کوششوں اور تجربوں کو نیا فروغ تھا۔ ستار اور روی شنکر ایک دوسرے کی علامت بن گئے جسے دیش اور دنیا کا سنگیت بھی دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ پنڈت روی شنکر نے ہندوستانی شاستری سنگیت میں تنہا اور ایک اجتماعی پروگراموں کے ذریعے دنیا بھر میں اپنے سنگیت کا جادو بکھیرا ۔ اسی طرح پاشچتے سنگیت کاروں کے ساتھ مل کر آرکیسٹرا کے ذریعے بھی خوب شہرت کمائی۔ حالانکہ ان کے شاستری سنگیت سماروہ میں آرکیسٹرا کے استعمال پر کئی لوگوں نے اعتراض کیا مگر پنڈت روی شنکر نے اس کی کبھی پرواہ نہیں کی۔ انہوں نے ملک بیرون ملک کئی نامی گرامی سنگیت کاروں کے ساتھ جگل بندیاں کیں اور سرود وادک علی اکبر خاں ، یہودی مینوہن ،جارج ریسن ،جوبن مہتہ وغیرہ کے ساتھ ان کے کام سب سے زیادہ سراہے گئے۔ ستیہ جیت رے کی فلم ’کابلی والا‘ اور رچرڈ اینرو کی ’گاندھی‘ فلم میں دئے ان کے سنگیت آج بھی یاد کئے جاتے ہیں۔’ گاندھی‘ فلم میں بنیادی سنگیت کے لئے انہیں بھاسکر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا کوی گورو رابندناتھ ٹیگور اور پنڈت روی شنکر تک بھارت کی پاسچوی تہذیبی روایت ایک ہی بات دوہراتی ہے کہ ہماری مقامیت اور عالمیت کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کی پورک ہے۔ اس کی محافظ ہے۔ ان کے جانے سے سنگیت دنیا کو گہرا جھٹکا پہنچا ہے۔پنڈت روی شنکر کے دیہانت پر نامی گرامی کمپنی گریمی ایوارڈ دینے والی ریکارڈنگ اکیڈمی نے اعلان کیا ہے کہ پنڈت روی شنکر کو بعد از مرگ لائف ٹائم اچیومنٹ گریمی ایوارڈ دیا جائے گا۔ یہ 10 فروری کو لاس اینجلس میں 55 ویں گریمی ایوارڈ تقریب میں دیا جائے گا۔ پنڈت روی شنکر یہ مایاناز ایوارڈ پانے والے پہلے ہندوستانی ہوں گے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟