کیا لابنگ کے نام پررشوت یا دلالی دی گئی ہے؟
خوردہ کاروبار میں سرمایہ کاری کے اپنے فیصلے پر پارلیمانی اکثریت کا انتظام کرنے کے لئے یوپی اے حکومت نے کیسی کیسی ترکیبیں اپنائیں اور کچھ پارٹیوں میں ووٹنگ نے وقت کس طرح سے پینترے بدلے۔ اس کی بحث ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ایک اور تنازعے نے طول پکڑ لیا ہے۔ خبر ہے کہ امریکہ کی بڑی کمپنی والمارٹ نے خوردہ کاروبار میں سرمایہ کاری کی اجازت کی خاطر لابنگ کی مد میں پچھلے چار برسوں میں 250 لاکھ ڈالر یعنی قریب سوا سو کروڑ روپے خرچ کئے۔ غور طلب ہے کہ یہ کسی کا الزام نہیں بلکہ یہ حقیقت خود والمارٹ کی ایک رپورٹ بتاتی ہے جو اس نے امریکی سینیٹ کو سونپی ہے۔ 300 ارب ڈالر سے زائد کے ہندوستانی خوردہ بازار پر نظر رکھنے والی والمارٹ نے اپنے حق میں گول بندی کرنے کے لئے سواسو کروڑ روپے پھونک دئے۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی بھی طرح بھارت کا بازار اس کے لئے کھول دیا جائے۔ بیشک یہ اپنے کاروباری مفادات کی تکمیل کے لئے خرچ کی گئی رقم ہے اور امریکہ میں اس طرح کی لابنگ کو اجازت حاصل ہے۔ مگر بھارت میں والمارٹ کی بے تابی اور طور طریقے مشتبہ لگے ہیں۔ لابنگ اور کمیشن ایجنٹ شپ بھارت کو پوری طرح ممنوع ہے۔ یہاں اس کا مطلب سیدھے رشوت خوری سے لگایا جاتا ہے جو کرپشن مخالف قانون کے تحت ایک جرم ہے۔ سابق وزیر قانون اور سینئر وکیل شانتی بھوشن کے مطابق والمارٹ نے ایف ڈی آئی پر لابنگ کی ہے تو یہ معاملہ صاف طور سے رشوت کا ہے۔ کمپنی نے اسی شخص کو پیسہ دیا ہوگا جو دیش میں ایف ڈی آئی کو اجازت دلانے کی طاقت و اہلیت رکھتا ہے۔ بھوشن فرماتے ہیں کہ کچھ برس پہلے دفاعی سامان خرید معاملے میں ایجنٹوں کو اجازت دینے کی تجویز تھی۔ اس میں ایجنٹ کسی کمپنی یا دیش کی جانب سے جو صرف اپنے پروڈکٹس کو بہتر بنانے کے لئے سرکار سے بات کرتے تھے جس کے لئے فیس طے ہوتی ہے۔ یہ اسی طرح سے ہے جیسے ایک وکیل اپنے موکلوں کا موقف کورٹ میں رکھنے کے لئے فیس لیتا ہے، جو پوری طرح سے جائز ہے۔ لیکن بوفورس سودے میں دھاندلی کے پیش نظر اس ریزولیوشن کو نامنظور کردیا گیا۔ اس کے علاوہ کارپوریٹ لابسٹ نیرا راڈیہ نے بھی ٹو جی اسپیکٹرم لائسنس دلانے کے لئے مبینہ طور پر لابنگ کی تھی۔ یہ ہی نہیں والمارٹ نے بھارت میں ایف ڈی آئی پر جاری بحث کو متاثر کرنے کے لئے بھی رقم خرچ کی ہے۔ایسے میں یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کیا ملٹی برانڈ خوردہ میں ایف ڈی آئی کا دروازہ کھولنے کے لئے یوپی اے سرکار پر کسی طرح کا دباؤ تھا؟ آخر وہ کونسے لوگ ہیں جنہیں والمارٹ نے متاثر کیا اور پیسہ دیا؟ ان میں کتنے ہندوستانی شامل ہیں۔پچھلے برس ایف ڈی آئی کا فیصلہ ٹالنے کے بعد سے یوپی اے سرکار کو جس طرح سے بین الاقوامی میڈیا اور دوسری ایجنسیوں کی تنقید جھیلنی پڑی تھی کیا وہ اس پر دباؤ بنانے کا ہتھکنڈہ تھا؟ کیونکہ بھارت میں لابنگ غیر قانونی ہے اور کروڑوں روپے کمپنی نے اس مقصد سے خرچ کئے ہیں۔ یہاں اس کی بہتر رہنمائی ہوسکے اس لئے سوال اٹھنے لگے ہیں کہ سرکار پر دباؤ ہوگا کہ وہ شفافیت کے ساتھ یہ بات کہے کہ اس کی پالیسی سازی ترجیحات کا نہ تو کسی کمپنی خاص سے کوئی لینا دینا ہے اور نہ ہی اس کی سرگرمی سے۔ سرکار کا جواب اس نقطہ نظر سے بھی صاف ہونا چاہئے کہ وہ اس بابت دیش کو واقف کرائے۔ اگر ایف ڈی آئی کا دروازہ تمام اعتراضات کے باوجود بھی کھولا جارہا ہے تو اس میں کسی کا ذاتی مفاد نہیں ہے۔ دراصل صاف تو یہ ہونا چاہئے اگر کوئی ادائیگی ہوئی تو وہ کسے کی گئی اور کس منشا سے؟
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں