اور اب سرکاری نوکریوں میں ترقی کا پینچ پھنسا
سرکاری ملازمتوں میں ترقی میں بھی ایس سی ایس ٹی کو ریزرویشن کا اشو سرکار کے لئے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ جہاں بہوجن سماج پارٹی نے دو تین دنوں کے اندر اس کے لئے آئینی (ترمیمی) بل پارلیمنٹ میں پیش نہ کرانے پر سرکار کے خلاف کسی حد تک جانے کی دھمکی دے ڈالی ہے وہیں سماجوادی پارٹی اس بل کو کسی بھی قیمت پر پاس نہ ہونے دینے کی بات کہہ رہی ہے۔ سماجوادی پارٹی کی وجہ سے ترقی میں ریزرویشن سے متعلق بل کو حکومت راجیہ سبھا میں پیش نہیں کرپائی۔ وزیر مملکت پرسنل نارائن سوامی نے اس پر بحث شروع کرنے کی کوشش کی لیکن سپا کی زور دار مخالفت کے سبب کارروائی ملتوی کرنی پڑی۔ سرکاری نوکریوں میں درجہ فہرست ذاتوں و قبائلی طبقات کو ترقی پر پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہونا کوئی غیر متوقعہ بات نہیں ہے۔ اس کے پورے آثار تھے یہ بھی صاف تھا کہ جہاں بہوجن سماج پارٹی اس بل کو ہر حال میں پاس کروانا چاہے گی وہیں سماجوادی پارٹی ایسا نہ ہونے دینے کے لئے پورا زور لگادے گی۔ آخر کار ایسا ہی ہوا اور اسکے چلتے پارلیمنٹ ہنگامے کا شکار ہوگئی۔ لیکن یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جس پر زور زبردستی کی سیاست کی جائے یا ووٹ بینک کی سیاست کے حساب سے فیصلہ لیا جائے۔ یہ دیش کی بدقسمتی ہی کہا جائے گا کہ ایسا ہورہا ہے۔ ہمیں تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ سپا بسپا اپنے اپنے ووٹ بینک کو اہمیت دیں لیکن اس کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتیں یہ ایک حساس ترین اشو ہے اور آئینی ترمیم سے جڑا ہوا اشو ہے۔ اتنا ہی نہیں یہ آئینی ترمیم ترقی میں ریزرویشن پر سپریم کورٹ کے اہم فیصلے کے بعد کیا جارہا ہے۔ اسی سے وابستہ ایک اور مسئلہ سپریم کورٹ میں آیا ہے۔ فوج میں مذہب ،ذات اور علاقے کی بنیاد پر ہونے والی بھرتیوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ جسٹس کے۔ ایس ۔رادھا کرشن اور جسٹس دیپک مشرا کی بنچ نے ڈاکٹر آئی ایس یادو کی مفاد عامہ کی عرضی کو سماعت کیلئے داخل کرلیا ہے۔ عدالت نے سالیسٹر جنرل روہٹن نریمن سے پوچھا ہے کہ کیا فوج میں مذہب، ذات اور خطے کی بنیاد پر تقرری مناسب ہے؟ ڈاکٹر یادو کا کہنا ہے کہ ایئرفورس و بحریہ کے برعکس فوج میں مذہب، ذات اور خطے کی بنیاد پر امتیاز ہوتا ہے جو نہیں ہونا چاہئے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ آئینی تقاضہ ذات، مذہب یا خطے کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیاز برتتا۔فوج میں 15 لاکھ لوگ کام کرتے ہیں ان میں سے25 فیصد ہر سال ریٹائرڈ ہوتے ہیں۔ مادرِ وطن کی خدمت کرنے کا حق کسی طبقہ خاص کے لئے نہیں ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ نوکریوں میں ترقی جیسے حساس ترین اشو کے حل کا کوئی ایسا فارمولہ نکالے جس سے نہ کوئی درجہ فہرست یا شیڈول قبائل کے مفادات کی خلاف ورزی نہ ہو اور نہ ہی دیگر طبقوں کے سرکاری ملازمین میںیہ احساس پیدا ہو کہ ان کے حقوق میں غیر ضروری کٹوتی کی جارہی ہے۔ آئینی نکتہ نظر سے اس کا جواز نہیں کہ نوکری میں ریزرویشن کا فائدہ پانے والے ترقی میں بھی ریزرویشن کی سہولت حاصل کریں لیکن سماجی ماحول اور امتیاز یا کسی اسباب سے ان ذاتوں کے طبقات کے سرکاری ملازم اعلی عہدوں پر نہیں پہنچ پارہے ہیں تو پھر سرکار کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ترقی کے موجودہ سسٹم میں بہتری لائیں۔ یہ بہتری کچھ اس طرح کی ہونی چاہئے جس سے اہلیت اور جواز نظرانداز نہ ہو پائے۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ جس خاندان کو ایک بار ریزرویشن کا فائدہ مل چکا ہو اسے پیڑھی در پیڑھی یہ فائدہ ملتے رہنا چاہئے؟ ویسے اگر ہم اترپردیش میں دیکھیں تو یہ طریقہ تو ایک طرح سے گھما پھرا کر لاگو کررہی ہے۔ جب سماجوادی پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو ایک طبقہ خاص کو ترجیح ملتی ہے اور جب بہوجن سماج پارٹی آتی ہے تو یہ دوسرے طبقہ خاص کو آگے بڑھاتی ہے۔ ہاں سینٹرل سروسز میں ابھی یہ سلسلہ نہیں چل رہا ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں