ہر فتویٰ سب پر نافذ نہیں:اسلامی دانشور

بازو پر ٹیٹو ہے تو نماز جائز نہیں ہے۔مسلم خاتون استقبالیہ میں نہیں بیٹھ سکتیں، موبائل فون پر مقدس قرآن پاک کی آیتیں لوڈ نہیں کی جاسکتیں۔ یہ کچھ ایسی فتوے ہیں جن کو لیکر حالیہ دنوں میں کئی سوال کھڑے ہوئے ہیں۔ جسم پر گدوائے جانے والے ٹیٹو کو مسلمانوں کے لئے مفتی کرام نے غیر شرعی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ٹیٹو بنوانے سے جسم کی کھال پر خاص سیاہی آجاتی ہے جس پر وضو کا پانی بھی اثر نہیں کرتا۔درالعلوم کے فتوے کے محکمے سے ایک شخص نے یہ سوال پوچھا تھا کیا وہ ٹیٹو گدوا کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ دارالعلوم دیوبند نے ایک دوسرے فتوے میں مسلم خواتین کو استقبالیہ دفتر میں مقرر کئے جانے کے خلاف ایک فتوی جاری کرتے ہوئے اسے غیرشرعی اور ناجائز قراردیا ہے۔ پاکستان میں واقع ایک کمپنی نے دیوبند سے پوچھا تھا کیا وہ ایک مسلم عورت کو استقبالیہ ملازم مقرر کرسکتی ہے۔ اس کے جواب میں 29 نومبر کو فتویٰ ملا جس میں بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کسی ادارے یا کسی مفتی کی طرف سے جاری کیا گیا فتوی کیا سبھی مسلمانوں پر نافذ ہوگا؟ دیش کے بڑے مسلم عالموں کی مانیں تو ہر فتوی سبھی پر نافذ نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ حوالہ اور حالاتِ خاص پر منحصر کرتا ہے۔ حالانکہ بنیادی عقیدت سے وابستہ فتوے پر کسی مسلمان کے لئے عمل کرنا ضروری ہے۔ جامیہ ملیہ اسلامیہ کے اسلامک اسٹڈیز کے چیف پروفیسر اخترالواسیع کا کہنا ہے کہ زیادہ تر فتوؤں کے ساتھ حالات اور تقاضے جڑے ہوتے ہیں اور ایسے میں وہ سب لاگو نہیں ہوسکتے۔ واسیع صاحب کا کہنا تھا سبھی فتوے سب پر لاگو نہیں ہوتے۔ فتویٰ کسی سوال کا جواب ہوتا ہے۔ ایسے میں قابل غور بات یہ ہے کہ سوال کن حالات اور کن اسباب کے تحت پوچھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر مسلم خاتون کے استقبالیہ میں ملازم ہونے سے وابستہ فتوی سب پر نافذ نہیں ہوسکتا۔ دیش کے سب سے بڑے اسلامی ادارے دارالعلوم دیوبند کے شعب�ۂ دارلافتاۂ کی جانب سے حال ہی میں بہت سے فتوے جاری ہوئے جو بحث کا موضوع بنے رہے۔ مثلاً اس نے کہا کے بازو پر ٹیٹو ہونے یا الکوحل ملے عطر کا استعمال کرکے نماز ادانہیں کی جاسکتی۔ دارالعلوم کی طرح سنی مسلمانوں کے ایک دوسرے مذہبی ادارے بریلی مرکزسے بھی کئی بار ایسے فتوے آتے رہے ہیں۔ کچھ مہینے پہلے اس نے ایک فتویٰ دیا تھا کہ اسلام میں تصوراتی نماز جائز ہے۔ اسلامی مسئلوں پر کئی بین الاقوامی تحقیق سے جڑے پروفیسر جنید حارث صاحب کا کہنا ہے اس کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔فتویٰ شرعی حکم ہے جو پوری طرح ہر ایک کے لئے ماننا ضروری ہے لیکن اگر کوئی فتویٰ غیر ضروری لگتا ہے تو اس کو ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس بارے میں کسی بھی عالم یا مفتی سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ایک فتویٰ سبھی پر نافذ نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہا وقت کے ساتھ بہت سی چیزیں بدلی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!