کرناٹک میں بری پھنسی بھاجپا ادھر کنواں تو ادھر کھائی

جنوبی ہندوستان میں بھاجپا کو پہلی بار اقتدار دلانے والے دبنگ لیڈر بی ایس یدی یروپا کے آخر کار پارٹی سے بغاوت کر نئی پارٹی کے اعلان کے بعد کرناٹک میں بھاجپا سرکار پر عدم استحکام کے بادل منڈرانے لگے ہیں۔ آج ایک بار پھر کرناٹک میں بھاجپا کو اپنے کو دوراہے پر کھڑا پا رہی ہے۔ آج جب پورے دیش میں ممکنہ سیاسی تصویر کی بات ہورہی ہے اور بھاجپا مرکز میں اقتدار میں آنے کا خواب لے رہی ہے ایسے وقت میں کرناٹک میں اس کی سرکار کے مستقبل کو لیکر قیاس آرائیاں شروع ہوگئی ہیں۔ ایتوار کو یدی یروپا کی کرناٹک جنتا پارٹی کی ریلی میں بھاجپا کے 13 ممبران کے شامل ہونے کے بعد کھلبلی مچ گئی ہے۔ 224 نفری اسمبلی میں بھاجپا سے118 ممبر ہیں جبکہ کانگریس کے71 ، جنتا دل (ایس ) کے 26 اور 7 آزاد ممبران ہیں۔ بھاجپا سے 13 ممبران کے نکل جانے کے بعد ان کی تعداد105 رہ جائے گی۔ یہ اکثریت کے نمبر سے کافی کم ہے۔ کرناٹک میں بھاجپا کی مشکل یہ ہے کہ باغی اپنے اوپر کارروائی کرنے کی پارٹی لیڈر شپ کو کھلی چنوتی دے رہے ہیں ،وہیں پارٹی کو یہ بھی پتہ ہے کہ اگر ڈسپلن شکنی کا ڈنڈاچلایا گیا تو سرکار کا گرنا طے ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر کے مطابق کیونکہ کرناٹک اسمبلی کے چناؤ اپریل کے مہینے میں ہوسکتے ہیں ایسے میں ممبران کے خلاف پارٹی کوئی کارروائی کرتی ہے تو یہ آگ میں گھی ڈالنے جیسی ہوگی۔ یہ ہی نہیں ڈسپلن شکنی کی کارروائی کرنے پر باغیوں کی تعداد بھی بڑھے گی اور ان کی طاقت بھی۔ اگرچہ پارٹی کوئی کارروائی نہیں کرتی تو اس کا پیغام نہ صرف کرناٹک بلکہ پورے دیش میں پارٹی ورکروں کے درمیان غلط پیغام دے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کرناٹک ایسی ریاست ہے جس نے جنوبی ہندوستان کی سیاست میں بھاجپا کی مضبوط پیٹ کے امکان کو بنیاد فراہم کی تھی لیکن کرپشن اور اندرونی رسہ کشی نے پارٹی کے اس امکان کو مدھم کرکے رکھ دیا ہے۔ کرناٹک میں بھاجپا ایک طرح سے اسی طرح کی علاقائی واد ساکھ کی سیاست سے لڑ رہی ہے جس طرح آندھرا پردیش میں کانگریس۔ بھاجپا کی مشکل یہ ہے کرناٹک میں یدی یروپا کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اس کی اب کوئی گنجائش نہیں بچی ہے۔ مرکز میں کرپشن کے اشو پر یوپی اے سرکار کو گھیرنے کو لیکر کرناٹک کی حالت پہلے ہی پارٹی کو کافی نقصان پہنچا چکی ہے اور دوسری طرف یدی یروپا کے بغاوتی تیوروں کے ساتھ وزیر اعلی جگدیش شیٹر کتنے دن اور اپنی سرکار چلا سکتے ہیں۔ اگلے کچھ دن میں کرناٹک کی سیاست میں تبدیلی کافی دلچسپ ہوسکتی ہے۔ اس درمیان ممکن ہے کہ وزیر اعلی جگدیش شیٹر خود ہی اسمبلی توڑنے کی سفارش کردیں کیونکہ ایسی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ یہ اہم فیصلہ کسی بھی وقت آسکتا ہے اگر شیٹر اسمبلی توڑ دیتے ہیں تو ایک طرف پارٹی اور سرکار پوری طرح اگلے چھ مہینے میں ہونے والے چناؤ پر توجہ دے گی وہیں کسی بھی وقت سرکار کے گرنے کا خطرہ بھی ٹک جائے گا۔ اس کے برعکس یدی یروپا کی رہنمائی والی کرناٹک جنتا پارٹی اب سیدھے بھاجپا کے خلاف مورچہ کھول کر ریاست میں حمایت اور تنظیم کی اپنی زمین کو مضبوط کرناچاہیں گے حالانکہ بھاجپا لیڈر شپ اب بھی ڈیمیج کنٹرول کرنا چاہے گی اور اب امید کرے گی کہ کچھ اور وقت نکل جائے۔
  1. (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟