جب موت کا کوئی ریکارڈ نہیں تو معاوضہ کا سوال نہیں!

مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں کہا کہ تین زرعی قوانین کے خلاف کسان آندولن کے دوران کسانوں کی موت کے بارے میں اس کے پاس کوئی تفصیل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ڈاٹا ہے ایسے میں معاوضے کا کوئی سوال ہی نیں اٹھتا لوک سبھا میں بدھ کو ایک تحریری جواب میں وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے یہ اطلاع دی اس پر کسان نیتاو¿ں نے کہا کہ وہ حکومت کو کسانوں کی اموات کی پوری تفصیل دینے کو تیار ہیں ۔ دہلی پولس ، مرکزی سرکار کے خفیہ ایجنسیوں کے پاس پورہ ڈیٹا ہوتا ہے کانگریس کے ایم پی منیش تیواری بسپا ایم پی دانش علوی اور اے آئی ایم ایم کے ممبر امتیاز ذلیل نے کسانوں کو معاوضہ دینے کی مانگ اٹھائی حالانکہ سرکار کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تیواری نے وقفہ سفر کے دوران اس مسئلے کو اٹھاتے ہوئے کہا کہ آندولن کے دوران سات سو کسانوں کی موتیں ہوئیں اس لئے سرکار کسانوں کے پریوار کو پانچ پانچ کروڑروپئے کا معاوضہ دیے اس کے ساتھ ایم ایس پی کو بنا کر کسانوں کی مانگ کو پوری کرے پچھلے ایک سال سے زیادہ وقت سے جاری آندولن پر مبینہ حملوں سے مرکزی سرکار نے اپنا پلہ جھاڑتے ہوئے صاف کیا کہ آندولن کر رہے کسانوں کی حفاظت کی پہلی ذمہ داری کسانوں کی ہے ۔ راجیہ سبھا میں کانگریس کے ایم پی کیسی وینو گوپال کی طرف سے بدھ کو ایک سوال کے تحریری جواب میں وزیر مملکت داخلہ نتیا نند رائے نے جانکاری دی وینو گوپال نے جاننا چاہا تھا کہ دیش میں حالیہ وقت میں انتظامیہ کے ساتھ لوگوں اور کسانوں کے آندولن پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے تو اس کا کی تفصیل کیا ہے انہوں نے کہا کہ مظاہروں میں مارے گئے کسانوں کی ریاست وار تعداد کتنی ہے ان کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے رائے نے کہا کہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورونے جرائم 2020میں 578646معاملے رپورٹ ہوئے ہیں لیکن اس میں کسانوں کے تحریک پر حملے کے سبب ان پر موٹے معاملے میں الگ تعداد موجود نہیں ہے در اصل آج کے وقت میں انتظامیہ ایسا ہو گیا کہ جو صرف سرکار کی طر ف سے پیش تعداد میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ کوئی تعجب نہیں کہ اگر سرکار کسانوں کی موت کے بارے میں نہیں جانتی لیکن یہ ٹالنا والا اشو نہیں ہے ۔ ہمارے انتظامیہ کو دیش میں چل رہی اہم واقعات کی کتنی اطلاع ہے ممکن ہے کہ کسانوں کے نیتاو¿ں کے دعویٰ میں کوئی فرق ہو مگر ان کا دعویٰ ہے کہ سندھو اور ٹکری غازی پور بارڈر پر قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے سات سو کسانوں کی جانیں گئیں ۔ موسم کی مار اور دین داریوں اور گندگی و خود کشی کے چلتے یہ اموا ت ہوئی ہیں ان اموات کی جانچ کر کے تفصیل سامنے لائی جا نی چاہئے مقامی تھانوں کے پاس تفصیل نہیں ہے کیا کسانوں کی نگرانی کی ذمہ داری کسی افسر کو نہیں دی گئی تھی ؟آج ہم جس دور میں وہاں حکام کو یقینی کرنا چاہئے کہ کوئی بھی فرضی خبر یا تفصیل لوگوں میں شائع نہ ہو کسان کافی دنوں سے یہ تفصیل چلا رہے ہیں اور معاوضے کی مانگ کر رہے ہیں جب کسانوں سے بات چیت ہوگی تب حکام کو پورے اعداد و شمار کے ساتھ پیش ہونا ہوگا، دیش کی ترقی اور آگے کی ترقیاتی منسوبوں کے لئے بھی اعدادو شمار درست رکھنے کی ضرورت ہے دیکھیں ہماری رائے میں سرکار کو ایسا ٹکا سا جواب نہیں دینا چاہئے تھا یہ آگ میں گھی ڈالنے کے سمان ہے اگر کسان انجمنیں اس پر بگڑ گئیں تو سرکار مشکل میں پھنس جائے گی ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟