وزیراعظم دو لاکھ لوگوں کی ریلی پر ہم بھیڑ پر گولیاں نہیں چلوا سکتے !

اپنی چناوی ریاستوں میں انفیکشن کی تیز رفتار پر مدراس ہائی کورٹ کے تلخ ریمارکس کے خلاف چناو¿ کمیشن نے پیر کو سپریم کورٹ میں اپنی صفائی پیش کی ۔مدراس ہائی کورٹ کی بنچ نے دیش میں کورنا کی دوسری لہر کے لئے چناو¿ کمیشن کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا تھا کہ کمیشن کے افسران کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا جانا چاہیے سپریم کورٹ نے ان ریمارکس کے خلاف عرضی پر سماعت کے دوران چناو¿ کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہم چناو¿ کراتے ہیں سرکار اپنے ہاتھ میں نہیں لتیے اگر دور دراز علاقہ میں وزیراعظم دو لاکھ لوگوں کی ریلیاں کررہے ہیں تو ہم (چناو¿ کمیشن)بھیڑ پر گولیاں نہیں چلوا سکتے ۔اسے دیکھنا قدرتی آفات انتظام محکمہ کا کام ہے میڈیا کو بھی ایسے تلخ ریمارکس کی رپورٹنگ سے روکا جانا چاہیے اس پر سپریم کورٹ کے جج ڈی وائی چندر چور و جسٹس ایم آر شاہ کی بنچ نے کہا میڈیا کو ججوں کی زبانی ریمارکس کی رپورٹنگ کرنے سے نہیں روکا جاسکتا ۔ججوں کے ریمارکس عدلیہ کاروائی کا حصہ ہوتے ہیں اس کی بھی اتنی ہی اہمیت ہوتی ہے جتنا کورٹ کے باقاعدہ حکم کی ۔کورٹ نے چناو¿ کمیشن کو نصیحت دیتے ہوئے کہا کہ آپ ہائی کورٹ کے ذریعے کئے گئے تبصروں کو ویسے ہی لیجئے جیسے ڈاکٹر کی کڑوی دوائی لی جاتی ہے ۔سپریم کورٹ نے چناو¿ کمیشن کی عرضی پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے ۔حالانکہ مدراس ہائی کورٹ کے سخت تبصرہ کے بعد چناو¿ کمیشن نے گنتی کے بعد جشن جلوسوں پر روک لگا دی تھی ۔نتیجوں کے بعد پارٹی دفاتر اور کاو¿نٹنگ مراکز کے باہر لگی بھیڑ پر چناو¿ کمیشن نے کہا انہیں روکنے میں ناکام رہے افسروں پر کاروائی ہونی چاہیے دوسرا چناو¿ کمیشن کے وکیل راکیش دیویدی نے کہا کہ قتل کا الزام نا مناسب ہے ۔جج کو اپنے فیصلے میں لکھنا چاہیے کہ اس کے ریمارکس کا کیا مطلب ہے ؟ جسٹس چندر چور نے کہا کہ ہم چناو¿ کمیشن کی بات سمجھتے ہیں لیکن ہم ہائی کورٹ کے ججوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہے ایسا نہٰں ہے کہ جج گھر سے سوچ کر آتے ہیں کیا بولنا ہے آئینی ادارہ کی حیثیت سے ہم چناو¿ کمیشن کا احترام کرتے ہیں ۔مغربی بنگال میں دو مارچ کو روزانہ کووڈ کے 131 مریض سامنے آرہے تھے ۔جو دو مئی کو 17ہزار 515 ہو گئے یعنی ایک سو دو گنا اضافہ ہوا ایسے ہی آسام میں 158 اور تملناڈو مین 123 گنا کیرل میں 105 گنا اور پڈوچیری مین 96 گنا مریض بڑھ گئے ہیں ۔بنچ نے مانا ریمارکس کاکافی سخت تھا ۔اور یہ تکلیف اور مایوسی میں کیا گیا ہوگا ۔کبھی کبھی جج بڑے مفاد عامہ میں کافی کچھ کہہ جاتے ہیں ۔جسٹس شاہ نے کہا ایک کے بعد ایک حکم پاس کئے جانے کے باوجود ملزم کے ذریعے احکامات کی تعمیل نہیں کی جاتی ۔زمینی حقیقت کی بنیاد پر ایسے ریمارکس پاس کئے جاتے ہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟