یہ بھی گزر جائے گا!

آج ہم لوگ دل ہی دل میں جس وقت کے جلدی گزرنے کے پرارتھنا کررہے ہیں ، وہ جلد ہی گزر جائے گا ۔دقت تب آتی ہے جب ہم ہمت ہارنے لگتے ہیں ۔اور یہی تو ہمیں نہیں کرنا ہے ۔ایک کہانی ہے ،اکبر ہمیشہ بیربل سے ایسے سوال کیا کرتے تھے جس کا جواب دینے میں کسی عام شخص کو مشکل آجائے لیکن ویربل انہیں چٹکیوں میں حل کر دیا کرتے تھے ایک مرتبہ بادشاہ اکبر نے پوچھا بیربل !ایسی بات بتاو¿ جسے سن کر دکھی آدمی خوش ہو جائے اور سکھی آدمی دکھی ہو جائے ۔بیربل نے فوراً جواب دیا کہ مہاراجہ وہ باتیں ہیں یہ وقت بھی گزر جائے گا اکبر بولے یہ بھی کوئی بات ہوئی ؟ تب ویربل نے سمجھایا کہ دیکھئے مہاراجہ اگر آپ کسی دکھی شخص سے کہیں گے کہ یہ دن جلدی گزرنے والے ہیں تو اسے امید بندھے گی کیوں کہ جب سکھ کے دن گزر گئے کیا دکھ کے دن نہیں گزر جائیں گے ؟ اسی طرح سکھی انسان یہ سوچ کر دکھی ہو سکتا ہے کہ جب اس کا سکھ کا وقت گزر جائے گا تو کہیں دکھ تو نہیں آجائے گا لیکن ہم اس سچ کو یاد رکھیں کہ وقت جیسا بھی ہو گزر ہی جاتا ہے ،تو ہمیں برا وقت کبھی پریشان نہیں رکھ سکتا ۔ایسا کبھی نہیں ہوتا ایک دکھ آیا تو ہمیشہ اسی شکل میں ،اسی انداز کے ساتھ وہیں ٹک جائے گا وقت کے ساتھ اس کا جاناطے ہے کچھ لوگ پچھلے ایک سال سے ہم کورونا وبا کے برے دور سے گزر رہے یہں پوری دنیا کے لوگ پریشانی سے باہر نکلنے کے لئے چھٹپٹانے لگے ہیں کوششیں ہوئیں تو کورونا ویکسین بننے کی وجہ سے اس کا حل بھی نکلا اور آہستہ آہستہ چیزیں سنبھلنے لگیں اب اگر ہماری تھوڑی سی لاپرواہی ہی اس وائرس کے کچھ طاقتور ہونے سے پھر ایسا وقت آگیا ہے تو کیا یہ نہیں گزرے گا ضروری بیتے گا کچھ ہی ہفتوں کی بات ہے آج اگر کورونا کا گراف زیادہ دکھائی پڑر ہا ہے تو بڑی تیزی سے یہ نیچے بھی آئے گا دراصل ہمارے لئے سب سے مشکل ہوتا ہے اس وقت کو گزرتے ہوئے دیکھنا ویسے انسان کا برتاو¿ ہے کہ ہمیں دکھ کا وقت آہستہ آہستہ گزرتے ہوئے لگتا ہے اور سکھ کا دور پنکھ لگا کر اڑ جائے گا ؟ اگر ہم تھوڑا سا صبر ار تحمل برتیں اور وقت کی اس سچائی کو جان لیں تومن اپنے آپ ہی خاموش ہو جائے گا ۔بالی ووڈ کے سہنشاہ کہے جانے والے امیتابھ بچن جب کیرئیر کے سب سے اونچے درجہ پر تھے تو فلم کی شوٹنگ کے دوران ان کے ساتھ ایک ایسا حادثہ ہوا کہ جان جاتے جاتے بچی اب وہ 78 سال کے ہیں اور ٹی وی وہیپاٹائٹس بھی جیسی بیماریوں میں مبتلا ہیں انہیں حال ہی میں کورونا بھی ہوا تھا لیکن وہ اسے بھی مات دے کر آگے بڑھ گئے ۔وہ خود بچا چکے ہیں کہ ان کا صرف 25 فیصدی جگر کام کرتا ہے لیکن انہیں ٹی وی شوز یافلموں میں دیکھ کر کبھی آپ اندازہ نہیں لگا پاتے وہ کتنی مشکلوں سے باہر نکلے ہیں شاید ان کی اس کے پیچھے یہی سوچ ہے کہ کسی بھی برے وقت یا درد میں اپنا بھروسہ نہیں کھوناچاہے آپ سوچئیے اگر ان دکتوں کے بعد وہ اس عمر میں خود کو بیحد خوش اور مصروف رکھ سکتے ہیں تو ہم بھی کرسکتے ہیں ہم اس وقت کو خود پر حاوی ہونے کا موقع کیوں دیں جو گزر جانے والا ہے اگر آپ کسی در د سے گزر رہے ہیںتو ایک کاغذ پر لکھیں: یہ بھی گزر جائے گا اسے آپ ایسی جگہ پر لگا دیں جہاں بار بار نظر پڑے اس کے ساتھ ہی اچھے وقت کے لئے پلاننگ کرنا شروع کر دیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟