آکسیجن نہ دینا قتل عام کے برابر!

کورونا مریضوں کو آکسیجن کی سپلائی نہ ہونے پر عدالتوں نے سخت رخ اختیار کر لیا ہے ۔چاہے سپریم کورٹ ہو یا ہائی کورٹ ہو سبھی جگہ سرکار کی زبردست کھچائی ہو رہی ہے دہلی میں روزانہ 700 میٹرک ٹن آکسیجن سپلائی کی ہدایت دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کے خلاف شروع کی گئی توہین عدالت کی کاروائی پر روک لگا دی ۔دہلی ہائی کورٹ نے راجدھانی میں ضرورت کے مطابق آکسیجن سپلائی نہ ہونے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے بدھ کو روک لگادی اور کہا حکام کو جیل میں ڈالنے سے دہلی کو آکسیجن نہیں ملنے والی ہے ۔ہم اتنا یقینی کریں کہ لوگوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں ۔اس رائے کے ساتھ عدالت نے صاف کیا کہ وہ کورونا معاملوں سے جڑی نگرانی کے لئے ہائی کورٹ کونہیں روکا جا رہا ہے ۔جسٹس چندر چور اور جسٹس ایم آر شاہ کی بنچ نے آکسیجن کے مسئلے سلجھانے کے لئے فوراً مرکز اور دہلی سرکار کے حکام کو آپس میں میٹنگ کرنے کی ہدایت دی ساتھ ہی مرکز سے بتانے کو کہا تھا کہ پچھلے تین دن میں دہلی کو کتنی آکسیجن دی گئی ۔ہم دہلی کے لوگوں کے تئیں جواب دہ ہیں ہم بھی ہیں رہتے ہیں اور لاچار ہیں ۔ہم یہ تصور کر سکتے ہیں کہ لوگ کس حالت میں ہیں ۔اتر پردیش میں کورونا انفیکشن کے چلتے اسپتالوں میں آکسیجن کی کمی کو لیکر الہ آباد ہائی کور ٹ میں سخت رائے زنی کرتے ہوئے کہا یہ نہ صرف مجرمانہ حرکت ہے بلکہ ایسا کرنا قتل عام سے کم نہیں ہے ،ایسی موتوں کی جواب دہی آکسیجن سپلائی کرنے والوں کی ہے جسٹس شدھارتھ ورما اور جسٹس اجیت کمار کی بنچ نے کہا میڈیکل سائنس اتنی آگے ہے کہ ہم ہارٹ ٹرانسپلانٹ کررہے ہیں ۔برین آپریٹ کررہے ہیں دوسری طرف آکسیجن کی کمی سے موتیں ہوتی جا رہی ہیں ۔عدالت نے کہا عام طور پر کورٹ شوشل میڈیا کی خبروں پر دھیان نہیں دیتی ہے مگر اس خبر کی حمایت وکیلوں نے بھی کی ہے ۔اترپردیش میں کئی ضلعوں میں آکسیجن کی سپلائی نہ ہونے کے چلتے موتیں ہوئی ہیں ۔کورٹ نے کہا یہ قتل عام ان لوگوں کے ہاتھوں ہو رہا ہے جن کے پاس لکوڈ میڈیکل آکسیجن مہیا کرانے اور سپلائی چین بنائے رکھنے کا ذمہ ہے یہ دیکھنا بے حد تکلیف دہ بھی ہے ۔کووڈ کے مریض بنا آکسیجن کے مررہے ہیں ۔ہم لوگوں کو اس طرح کیسے مرنے دے سکتے ہیں ؟ یہ تب ہے جب آج سائنس اتنی آگے بڑھ چکی ہے ۔بنچ نے منگل کو کہا کہ لکھنو¿ اور میرٹھ میں آکسیجن کی کمی سے موتوں کی خبریں آئی ہیں عام طور پر خبروں کی جانچ کے لئے وہ سرکار یا ضلع انتظامیہ کو ہدایت نہیں دیتی لیکن بڑی تعداد میں وکیلوں نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ریاست میں سبھی ضلعوں میں یہی حالات ہیں ۔ایسے میں لکھنو¿ اور میرٹھ کے ضلع حکام کو ہدایت دی جاتی ہیں کہ وہ 48 گھنٹہ میں جانچ کر ہمیں رپورٹ دیں ساتھ ہی اگلی تاریخ پر ویڈیو کانفرنسنگ میں کورٹ کے سامنے پیش ہوں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟