ٹیکے کی قیمت و تقسیم کمپنیوں پر نہ چھوڑی جائے!

سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کی کوو ڈ ویکسی نیشن پالیسی پر سنگین سوال کھڑے کئے ہیں ۔ عدالت نے کہا مرکز اور ریاستوں کیلئے الگ الگ قیمت طے کرنے کی دوا بنانے والی کمپنیوں کو اجازت نہیں دی جاسکتی مرکز کو قومی ویکسی نیشن مہم کے تحت کووڈ کے ٹیکے کو لگانے کی ذمہ داری دینی چاہئے۔ جسٹس دھننزے چندر چو ایل ناگیشور راو¿ اور ایس رویندر بھر کی بنچ نے مرکز ی حکومت سے سوال کیا وہ پیٹرنڈ کے تحت ضروری لائسنس دینے کے اختیار پر غور کیوں نہیں چل رہا ہے ٹیکے کی قیمت اور اس کے تقسیم کی ذمہ داری دوا بنانے والوں پر نہ چھوڑی جائے مرکز کو ا س کی ذمہ داری لینی ہوگی ۔ عدالت نے کہا ٹیکے کی خرید مرکزی حکومت کر ررہی ہو یا ریاستی حکومت آخر یہ دیش کے شہریوں کے لئے ۔ ہمیں قومی ویکسی نیشن مہم کا ماڈل اپنانا ہوگا، مرکزی حکومت صد فیصد ٹیکوں کی خرید اری کرے اور ٹیکے بنانے والوں کی پہچا ن کرے اور ان سے مول بھاو¿ طے کرے اس کے بعد ریاستوں کو ٹیکہ تقسیم کیا جائے ٹیکے کی خریداری کا سینٹرلائزیشن ہونا چاہئے اور تقسیم کی لاب مرکزیت ۔ مرکز نے پچاس فیصد کوٹا پہلے ہی سے ریاستوں کو دے دیا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹیکے کی پروڈیکشن کرنے والی کمپنی یہ طے کرے گی کہ کس ریاست کو کتنا ٹیکہ سپلائی کرنا ہے ۔ کیا غیر جانبدارانہ اورملکیت انصاف کا معاملہ پرائیویٹ کمپنی پر چھوڑا جا سکتا ہے ؟ ۔بنچ نے کہا کہ ٹیکہ کو ایجاد کرنے اور اس کو بنانے کیلئے 45سو کروڑ روپئے کا فنڈ دیا گیا ہے اس لئے پروڈیکٹ کا مالکانہ حق سرکار کا ہے یہی اب پروڈیکشن کمپنی کہہ رہی کہ مرکز کیلئے قیمت 150روپئے یا اور ریاست کیلئے 300سے400روپئے ہے اور تھوک کے بھاو¿ میں یہ فرق 30سے 40ہزار کروڑ کا ہوتا ہے دیش اتنی بڑی رقم کو خرچ کرے ؟ اس پیسے کا استعمال کہیں اور بھی کیا جاسکتا ہے مرکزی حکومت تھوک میں ٹیکوں کو کیوں نہیں خریدتی ریاست اسے اپنا کوٹہ لے سکتی ہے سپریم کورٹ نے کہا امریکہ میں بھی ایک ٹیکے کی قیمت 2.15ڈالر ہے یوروپ میں اس سے بھی کم بھار ت کے لوگوں کیلئے مہنگی ویکسین کیوں ؟ ریاستی حکومتوں کو چھ سو روپئے اور پرائیویٹ اسپتالوں کو 1200روپئے میں بیچنے کا کیا جواز ہے ؟ بھارت دنیا کا سب سے بڑا انجیکشن خریدنے والا کنزیومر ہے ۔ 1845سال کی عمر کے تقریباً 59کروڑ لوگوں کو ٹیکہ لگنا ہے ان میں سماج کے محروم طبقات کے لوگ اور درج فہرست ذاتوں ور قبائل کے لوگ بھی ہیں ۔ یہ لوگ کہاں سے اتنا پیسہ لائیں گے؟ مشکل کے وقت پرائیویٹ سیکٹر ماڈل سمجھ سے باہر ہے ۔ سپریم کورٹ آج کل جنتا کی آواز بنی ہوئی ہے کوئی تو خیال رکھنے والا ہے مرکز کی غلط پالیسیوں کا اور جنتا کی آوازاٹھانے والا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!