غم ،غصے اور نم آنکھوں سے 40شہیدوں کی انتم ودائی

غم،غصے،اور نم آنکھوں سے سولھ ریاستوں میں 40شہیدوں کی انتم یاترا پر لاکھوں لوگ انہیں شردھانجلی دینے نکلے شہید سپوتوں کو سنیچر کو بھاری غصے کے درمیان انتم سنسکار کیا گیا ۔ اترپردیش، بہار، پنجاب، ہریانہ سمیت دیش کی سولھ ریاستوں میں 40سی آر پی ایف جوانوں کو انتم ودائی دینے ترنگا لہراتے ہوئے پہنچے ۔پلوامہ آتنکی حملے میں شہید ہوئے جوانوں کی لاش جب الگ الگ ریاستوں میں پہنچی تو ان کی انتم یاترا کا منظر دیکھنے والا تھا ۔اتراکھنڈ کے ادھم سنگھ نگر کے باشندے شہید ویرندر سنگھ رانا کا جسد خاکی جب گھر پہنچا تو شردھانجلی دینے والوں کی بھیڑ لگ گئی ۔ویرندر سنگھ کے دھائی برس کے بیٹے بچان نے اپنے پتا کی جسد خاکی کو مکھ اگنی دی اہیں سنیچر کو دہرادون کے شہید ہوئے اے ایس آئی رتوری کو ان کی بہادر بیٹی نے پتا کو سیلوٹ کیا اور یکایک دیکھتی رہی ۔پریاگ راج کے جب شہید ہوئے سی آر پی ایف کے جوان مہیش کمار یادو کا جسد خاکی پہنچا تو سی آر پی ایف کے جوانوںنے سلامی دئے جانے کے بعد شہید کے والد راجکمار یادو نے مکھ اگنی دی ادھر شہید ہوئے جوانوں کو انتم ودائی دی جا رہی تھی تبھی خبر آئی کہ ایل او سی کے راجوری کے نو شہرا سیکٹر میں بارودی سرنگ دھماکے میں فوج کے انجینرنگ شعبے کے میجر چتدریش سنگھ دشٹ شہید ہو گئے ۔ایک جوان بھی زخمی ہوا وہ ایک آئی ڈی بم کو نا کارہ کر رہے تھے ۔اچانک وہ پھٹ گیا ۔حالانکی بشٹ نے بارودی سرنگ کو کامیابی کے ساتھ ختم کر دیا تھا ۔حالانکہ دوپہر بعد قریب تین بجے دوسری آئی ای ڈی کو ناکارہ بناتے وقت اس میں دھماکہ ہو گیا ۔31سالہ بشٹ دہرادون کے رہنے والے تھے اور 7مارچ کو ان کی شادی ہونے والی تھی ۔شہید ہونے والے جوانوں کا تعلق اترپردیش ،بہار ،مغربی بنگال،پنجاب ،اتراکھنڈ،ہماچل پردیش،جموں و کشمیر،راجستھان، جھارکھنڈ،ا ڑیشہ، کیرل، مہاراشٹر،تمل ناڈو، کرناٹک،آسام صوبوں سے تھے ۔جو شہید ہوئے ۔ان لاشوں کی حالت دیکھ لوگوں میں زبردست غصہ بھرا ہوا تھا ۔جوانوں کے جسم کا وہ حال ہو چکا تھا کہ جسے بیان کرنا مشکل ہے ۔حملے کے فورا بعد آئی تصویرں اس کی گواہ بھی تھیں کہ دھماکے کے بعد لاشوں کا پہچاننا مشکل ہو گیا تھا ۔کہیں ہاتھ پڑا تھا تو کہیں جسم کا حصہ بکھر ا پڑا تھا اور ان کے سامان وغیرہ ادھر اُدھر پڑے ملے حملے کی یہ جگہ جنگ جیسی زمین دکھائی دے رہی تھی ۔جسم کے بعد باقی ان کے سامانوں کو اکھٹا کر کے ان کی پہچان کا کام شروع ہوا اس کام میں جوانوں کے آدھار کارڈ آئی ڈی کارڈ سے بڑی مدد ملی جن جوانوں کے سر پر چوٹ آئی تھی ان کی پہچان صرف شناختی کارڈ سے ہو سکی ۔کئی جوان گھر جانے کے لئے چھٹی کی درخواست لکھ کر دے آئے تھے ۔اس درخواست کو وہ اپنے بیگ میں یا اپنی جیب میں رکھے ہوئے تھے اسی کی فوٹو کاپی کی بنیاد پر انہیں پہچانا جا سکا ۔اس زبردست دھماکے میں کئی جوانوں کے بیگ ان سے الگ ہو گیے تھے اس کی پہچان ان کے کوٹ نمب و گھڑیوں سے ہوئی ۔سب سے دکھ کی بات یہ ہے کہ پلوامہ کے شہیدوں کو شردھانجلی دینے عوامی سیلاب امڑ پڑا تھا ۔وہیں جس یونیورسٹی میں طلباءاپنا جشن منا رہے تھے اور دیش مخالف نعرے بازی ہو رہی تھی قوی منوج کمار کی ستور ہیں .....سکھ بھر پور گیا ،مانگ کا سندور گیا،نگے نو نہالوں کی لنگوٹیاں چلی گئیں ،باپ کی دوائی گئی ،بھائی کی پڑھائی گئی ،چھوٹی چھوٹی بیٹیوں کی چوٹیاں چلی گئیں ۔ایسا ایک دھماکہ ہوا جسم کا پتہ نہیں پورے ہی جسم کی کوٹھیاں چلی گئیں ۔آپ کے لئے تو ایک آدمی مرا ہے صاحب،کہ میرے گھر کی تو روٹیاں چلی گئیں ۔جی!ایک بار پھر جموں و کشمیر کے پلوامہ میں سی آر پی ایف کے جوانوں کی شہادت کے ساتھ مہندی لگے ہاتھوں نے منگل سوتر اتارے بوڑھے ماں باپ کا سہارا چھن گیا ،ننھے منھے بچوں کے سر سے باپ کا سایہ اُٹھ گیا اور بہن کی راکھی چلی گئی اس سب کے بعد ہاتھ آیا تو ہم بدلہ لیں گے اور کارروائی کریں گے کی صرف باتیں ہیں ۔لیکن کب تک پتہ نہیں ۔ہم بار یہی کرتے آرہے ہیں ۔اور لگتا ہے یہی کرتے رہیں گے ۔کیونکہ مرنے والے فوجی کچھ نہیں لگتے اس لئے ان کے چھتڑے اڑے جسم ہمارے دل کو نہیں دہلا سکتے ۔ہم کر سکتے ہیں تو صرف سردھانجلی پروگرام اور کچھ دے سکتے ہیں تو وہیں گھسے پٹے بیان جنہیں سن کر کان پک چکے ہیں ۔سوال ہر بار کی طرح اس بار بھی یہی ہے آخر کب تک ہم اپنے فوجیوں کو دہشتگردوں کی بھینٹ چڑھاتے رہیں گے ؟کب تک فوجیوں کے خاندان بے سہارا اور ان کے بیٹے بیٹیاں یتیم ہوتے رہیں گے ؟کیا وجہ ہے کہ بھارت کی آزادی کے 7دہائی کے بعد بھی دہشت کے خوف کے سائے میں جی رہے ہیں ؟بھلے ہی وہ انٹرنل سیکویورٹی ہو یا بھاری سرکشہ ،دونوں ہی بھارت کے سامنے بڑے مسئلے بنے ہوئے ہیں ایک طرف ہم آتنکی وارداتوں کو روکنے میں ناکام ہو رہے ہیں اور اپنے فوجیوں کو گنوا رہے ہیں ،دوسری طرف دیش کے نوجوانوں کی آتنکی تنظیموں میں شامل ہونے کی خبریں باعث تشویش ہیں کیا حالات اتنے بگڑ چکے ہیں اور انسانیت کے پیمانے اتنے گر چکے ہیں کہ ایک پڑھے لکھے لڑکے کو دہشت کی پناہ میں جانے کے لئے مجبور ہو نا پڑے ؟کیا ہمارے دیش کے ہونہار اتنے کمزور ہیں کوئی بھی ان کا برین واش کر سکتا ہے ؟ایسے کئی سوال ہیں جو دیش میں کروڑوں لوگوں کے دلوں میں کانٹے کی طرح چبھ رہے ہیں ۔آخر کیوں ہم روک نہیں پا رہے ہیں ۔ایسے میں بھارت کو اپنا نرم رخ چھوڑ کر دہشتگردوں کے ساتھ دہشتگردوں جیسا برتاﺅ کرنا ہوگا ۔معاہد ہ اور سمجھوتے کی بنیاد پر امن قائم کرنے کی سالوں کی کوششیں صرف کاغذوں پر دکھائی دے رہی ہیں زمین پر اس کا اثر دکھائی دے ایسی کارروائی کرنے کی آج ضرورت ہے ۔یہ خط جالور کے دوے -ددراج سدھار نے لکھا ہے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

ہریانہ میں غیر جاٹوں کے بھروسے بھاجپا!